تباہ کن سیلابی صورتحال کے ملکی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟
ملک کے بیشتر اضلاع بارشوں اور سیلاب کے باعث شدید متاثر ہیں، قیمتی جانوں کی ضیاع کے ساتھ،املاک اور قیمتی سامان پانی کی نذر ہورہے ہیں،حکام کی جانب سے دعوی کیا جارہا ہے کہ حالیہ سیلابی صورتحال 2010کے سیلاب سے زیادہ تباہ کن ثابت ہورہا ہے۔
ملک کا دو تہائی حصہ پانی سے متاثر ہونے سے نقل وحمل اور اشیاء کی ترسیل بھی بری طرح متاثر ہیں زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جو بالواسطہ یا بلا واسطہ ان حالات سے محفوظ ہو۔ملکی معیشت جو پہلے ہی مشکل دور سے گزررہی ہے موجودہ سیلابی صورتحال سے ملکی اقتصادی پریشانیاں مزید بڑھنے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
مہنگائی مزید بڑھ سکتی ہے
مقامی سبزی اور پھل منڈیوں کے بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان،سندھ،جنوبی پنجاب اور خیبر پختون خواہ کے کئی اضلاع میں سیلابی صورتحال کے باعث سبزیوں،پھلوں اور دیگر اجناس کی ترسیل متاثر ہوگئی ہے جب کہ پانی میں بڑے پیمانے پر سبزیاں پھل ضائع بھی ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے مقامی منڈیوں میں سبزیوں اور پھلوں کی آمد کم ہونے کے باعث قیمتیں بڑھ گئیں ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر جانور وں کی ہلاکت اور ترسیل نہ ہونے کی وجہ سے گوشت اور دودھ کی بھی قیمت بڑھنے کا خدشہ ہے۔مقامی ڈیری فارمرز کا کہنا ہے کہ گھاس،بھوسہ اور دیگر چارے کی آمد رک گئی ہے جس کی وجہ سے چارہ مہنگا ہوگیا ہے ڈیری فارمرز نے لاگت بڑھنے کے پیش نظر دودھ کی قیمت میں اضافے کا عندیہ دیا ہے۔
اسماعیل اقبال سیکورٹیز کی ریسرچ رپورٹ کے مطابق عالمی مارکیٹ میں بھی اجناس کی قیمتیں بلند سطح پر ہے اوپر سے ملک میں سیلابی صورتحال سے اشیاء صرف کی ترسیل متاثر ہونے کے باعث امکان ہے کہ آنے والے دو ماہ میں مہنگائی زیادہ رہے گی اور ماہانہ مہنگائی کی شرح 26تا27فیصد رہنے کا امکان ہے تاہم نومبر میں صورتحال معمول پر آنے کی توقع ہے۔
2010کے سیلاب کے بعد مہنگائی میں اضافہ ہوگیا تھا خاص طور پر غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا لیکن غیر غذائی اشیاء کی قیمتوں میں کمی آگئی تھی جس کی بنیادی وجہ ممکنہ طور پر شہریوں کی جانب سے کم قوت خرید تھی۔
بے روزگاری بڑھنے کا خدشہ
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ سیلابی صورتحال کے باعث زراعت،اسمال انڈسٹریز اور دیگر زاتی روزگار کرنے والے لوگوں کو براہ رست بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے اس کے علاوہ مہنگائی اور شہریوں کی قوت خرید کم ہونے کے باعث معاشی سرگرمیاں بھی سست پڑنے کا امکان ہے جس کا اثر ورزگار کے مواقع کم ہونے کی صورت میں نکلے گا اور ملک میں بے ورزگاری مزید بڑھ سکتی ہے۔
کس فصل کو فائدہ اور کس فصل کو نقصان ہوگا؟
بارش اور سیلاب کے سبب کپاس، چاول، کھجور اور خریف کی سبزیاں اور پھل بری طرح متاثر ہوئے ہیں لیکن آنے والے ہفتوں میں سیلابی صورتحال ختم ہونے کے بعد کی فصلوں کو فائدہ بھی ہوگا ان فصلوں میں گندم،مکئی اور سرسوں جیسی فصلوں کی پیداوار اچھی ہونے کی توقع ہے۔
دوسری جانب جے ایس گلوبل نے اپنی ریسرچ میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے کسانوں کے ٹیوب ویل اور دیگر انفرااسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچا ہے جب کہ کھاد کی قیمت پہلے ہی بلند سطح ہے جس کی وجہ سے کسانوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور آنے والی فصلیں بھی متاثر ہوسکتی ہیں۔
2010کے سیلاب کے بعد فصلوں میں کپاس کی فصل 11.3فیصد اور چاول کی فصل 29.9فیصد کم ہوگئی تھی لیکن دوسری جانب گندم کی پیدوار میں 8.2فیصد اور گنے کی پیداوار میں 12فیصد اضافہ ہوگیا تھا۔
بینکنگ،انڈسٹری اور سیاحت پر اثرات
مہنگائی اور عمومی طور پر ڈیمانڈ میں کمی کے باعث معاشی سرگرمیاں سست پڑنے کاامکان ہے جس کی وجہ سے بینکوں سے قرض لینے کے رجحان میں کمی کی توقع ہے دوسری جانب بڑے نقصانات کے پیش نظر بینکوں کے غیر فعال قرضوں کو بوجھ بھی بڑھنے کا مکان ہے۔
بارش اور سیلاب کے باعث سوات، کالام، بحرین، مدین، چترال، دیر سمیت کئی تفریحی مقامات کا انفرااسٹرکچر بری طرح تباہ ہوگیا ہے جس کی بحالی میں طویل عرصہ لگ سکتا ہے جس کے پیش نظر سیاحت کے لئے مشہور علاقوں میں سرگرمیاں معطل رہنے کا خدشہ ہے۔ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ کئی ماہ تک ان علاقوں میں سیاحت بحال نہیں ہوسکے گی۔
2010کے سیلاب کے بعد سیمنٹ، فرٹیلائزر اور آٹو انڈسٹری میں مختلف رجحانات سامنے آئے۔اسماعیل اقبال سیکورٹیز کی رپورٹ کے مطابق سیمنٹ کی فروخت میں 2010کے سیلاب کے بعد 6.6فیصد کمی آئی تھی ، یوریا کی فروخت میں 12.1 فیصد ، ڈیزل کی فروخت میں 14.7فیصد اور ٹریکٹرز کی فروخت میں 3.1فیصد کمی آئی تھی لیکن اسکے مقابلے میں پٹرول کی فروخت میں 17.3فیصد اور کاروں کی فروخت میں 3.4فیصد اضافہ ہوگیا تھا۔
تجارتی اور کرنٹ اکاونٹ خسارہ بڑھے گا؟
کاٹن بروکرز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان کے مطابق مسلسل طوفانی بارشوں اور سیلابوں کی وجہ سے کپاس کی فصل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے جس کے نتیجے میں کپاس کی قلت کے پیش نظر قیمت 23ہزار روپے فی من کی پاکستان کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
نسیم عثمان کے مطابق کپاس کی فصل متاثر ہونے کے باعث ٹیکسٹائیل برآمدات متاثر ہوں گی اور بڑے پیمانے پر روئی درآمد کرنی پڑے گی۔دوسری جانب سرکاری اطلاعات کے مطابق ملک بھر میں چاول کی فصل کو بھی نقصان پہنچا ہے جس کی وجہ سے چاول کی برآمد متاثر ہوگی۔
معاشی ماہرین کے مطابق کپاس اور غذائی اشیاء کی درآمد زیادہ ہونے اور چاول وٹیکسٹائیل برآمدات میں متوقع کمی کے باعث تجارتی خسارہ بڑھنے کا امکان ہے۔
جے ایس گلوبل کی ریسرچ رپورٹ کے مطابق گندم اور کپاس کی درآمد بڑھنے اور ٹیکسٹائل کی برآمد میں کمی کی ضمن میں 4.5ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی صورت میں بوجھ بڑھنے کا امکان ہے۔
دوسری جانب اسماعیل اقبال سیکورٹیز کی رپورٹ کے مطابق حکومت کی جانب سے درآمدات کی حوصلہ شکنی کے لئے کئے جانے والے اقدامات اور شہریوں کی مہنگائی کی وجہ سے قوت خرید کم ہونے کے باعث درآمدات شاید بہت زیادہ نہ بڑھے اور ساتھ ہی سیلابی صورتحال کے پیش نظر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر میں اضافے کا امکان ہے جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ کچھ بڑھ بھی گیا تو کرنٹ اکاونٹ خسارہ کنٹرول میں رہے گا۔
شرح نمو بڑھے گی یا کم؟
اسماعیل اقبال سیکورٹیز کی ریسرچ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2010 اور 2011 کا موازنہ کیا جائے تو سیلاب کے بعد شرح نمو میں ایک فیصد اضافہ ہوا تھا، سیلاب سے پہلے جی ڈی پی گروتھ 2.6 تھا جو اگلے سال بڑھ کر 3.6 فیصد ہوگیا۔
اسٹاک مارکیٹ پر 2010کے سیلاب کا کوئی منفی اثر نہیں پڑا تھا بلکہ سیلاب کے بعد کے ایس ای100انڈیکس میں 28.5فیصد اضافہ ہوگیا تھا جب کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اس دوران شرح سود میں 0.8 فیصد اضافی کردیا گیا تھا۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ سیلاب سے اسٹاک مارکیٹ طویل المیعاد بنیادوں پر متاثر ہوسکتی ہے لیکن آگے جاکر ان اثرات سے اسٹاک مارکیٹ نکل جائے گی دوسری جانب شرح سود پہلے ہی بلند سطح پر ہے جس میں مزید اضافے کی توقع نہیں لیکن مہنگائی بڑھنے کے خدشات کے پیش نظر کمی کی بھی امید نہیں ہے۔