احمد فراز کو مداحوں سے بچھڑے 14 سال بیت گئے
معروف شاعر احمد فراز کو مداحوں سے بچھڑے 14 برس بیت گئے۔
لاکھوں دلوں پر اپنی شاعری کے ذریعے حکمرانی کرنے والے احمد فراز 12 جنوری 1931 کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے اور 25 اگست 2008 کو راہ عدم پر روانہ ہوگئے، انہیں ستارہ امتیاز، ہلال امتیاز اور دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ہلال پاکستان سے بھی نوازا گیا۔
ان کی شاعری میں غم جاناں بھی ہے اور غم دوراں بھی، خوابوں کو سربازار فروخت کرنے والے احمد فراز کو خوب شہرت ملی اور نامور گلوکاروں نے اُن کے کلام کو امر کردیا۔
شعر و ادب کی کوئی بھی محفل ہو آج بھی فراز کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے، انکے اشعار آج بھی ہر چاہنے والے کو ازبر ہیں، فراز کی شاعری بیک وقت رومانویت اور مزاحمت کا استعارہ کہلاتی ہے۔
احمد فراز ایسے خوش نصیب تخلق کار تھے جن پر الفاظ نچھاور ہوجاتے اور حروف و معنی اپنی تاثیر وقف کردیتے تھے، فراز کے ہاں ہجر کے مراحل سے وطن پرستی کی فکری اساس تک معنویت کے کئی در وا ہوتے۔ اپنی شعری روایت اور تاثیر میں اپنی مثال آپ تھے۔
احمد فراز کی چودھویں برسی پر اکادمی ادبیات اسلام آباد میں خصوصی تقریب ہوئی جس میں احمد فراز کے صاحبزادے سعدی فراز نے بھی شرکت کی، مختلف شاعروں نے اپنے اپنے انداز میں فراز کو خراج تحسین پیش کیا۔
احمد فراز کے صاحبزادے سعدی فراز نے بطور والد اور شاعر اُن کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہمیں ہمیشہ ان پر فخر رہا ہے لیکن جو چیزیں ذیادہ قابل فخر رہیں وہ انکا مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا، ظلم کے خلاف آواز اٹھانا، حرف کی توقیر و ناموس کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دینا تھا۔