نیگلیریا؛ کراچی کے شہریوں کو نگلنے والا جرثومہ

کراچی میں 12 سال کے دوران امریکا سے بھی زیادہ اموات، رپورٹ

’‘جب بیٹے کا رزلٹ میرے ہاتھوں میں آیا تو اس نے کلاس تھری میں ٹاپ کیا تھا لیکن شاید خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا’’، اس کے رزلٹ آنے میں شاید تاخیر ہوگئی اور میرا بیٹا اپنے رزلٹ سے دو دن پہلے انتقال کرگیا۔ اولاد کے جدا ہونے کا دُکھ شادمان ٹاؤن کے رہائشی فہد معین ہی کا نہیں کراچی کے کئی والدین کا ہے، جو 2008ء سے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پیاروں کو ایسی بیماری کے نتیجے میں مرتا دیکھ رہے ہیں جس کا کوئی علاج نہیں۔

گزشتہ سال جولائی میں شادمان ٹاؤن کراچی کا 8 سالہ زوہیب فہد دماغ خور جرثومے نیگلیریا کے نتیجے میں انتقال کرگیا۔ فہد معین نے سماء ڈیجیٹل کو بتایا کہ ان کے بیٹے زوہیب نے تیسری جماعت کے پیپرز دیئے تھے اور اس کے انتقال کے دو دن بعد رزلٹ آیا تھا، جس میں اس نے پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ زوہیب کو گزشتہ سال بخار کی شکایت پر قریبی اسپتال لے گئے تھے جہاں ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ وائرل فیور ہے، میرے بیٹے نے اپنے ماتھے سے اوپر کی طرف اشارہ کرکے بتایا تھا کہ اس کے سر میں شدید درد ہے، جس پر ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ ممکن ہے بچے کی نظر کمزور ہو اس لئے اس کی نظر چیک کروائیں۔

فہد معین نے بتایا کہ اگلے دن صبح 6 بجے آفس جاتے ہوئے زوہیب کو دیکھا تو اس پر غنودگی (ان کانشیس نیس) طاری ہورہی تھی، اس لئے اسے سیدھا اسپتال لے گیا، جس پر ڈاکٹروں نے بتایا کہ گردن توڑ بخار سے ملتی جُلتی علامات ہیں اور میں اسے فوراً لیاقت نیشنل اسپتال لے گیا، جہاں ڈاکٹروں نے زوہیب کی حالت دیکھتے ہوئے وینٹی لیٹر پر منتقل کردیا اور ڈیڑھ دن گزرا ہوگا کہ ڈاکٹروں نے ہمیں جواب دے دیا، ڈاکٹروں نے ہی ہمیں بتایا کہ طبی رپورٹس میں نیگلیریا کی تصدیق ہوئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ فہد کے انتقال کے بعد محکمہ صحت اور واٹر بورڈ کی ٹیمیں ہمارے گھر آئی تھیں، پانی کے سیمپلز لئے اور یہ بتایا کہ پانی میں کلورین شامل نہیں ہے۔

اس حوالے سے واٹر بورڈ حکام کا کہنا تھا کہ شادمان ٹاؤن کے علاقے میں جب پانی کے نمونے لئے گئے تو وہاں پانی میں ایکولائی پایا گیا جس کا مطلب ہے کہ اس علاقے کو فراہم کئے جانیوالے پانی میں کہیں نہ کہیں سیوریج کے پانی کی آمیزش ہے۔

محکمہ صحت سندھ کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں دماغ خور جرثومے سے گزشتہ 12 برس کے دوران 83 جبکہ سندھ بھر میں 89 اموات رپورٹ ہوئی ہیں، ضلع شرقی اور وسطی سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع قرار پائے ہیں، سال 2019ء میں سب سے زیادہ 15 افراد نیگلیریا کا شکار بنے۔

محکمہ صحت کے ریجنل ڈیزیز سرویلنس اینڈ رسپانس یونٹ اور کمیونیکیبل ڈیزیز کنٹرول کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق 12 برس کے دوران سندھ میں دماغ خور جرثومے نیگلیریا کے 89 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق صوبے میں 2011ء میں نیگلیریا سے ایک، 2012ء میں 9، 2013ء میں 3، 2014ء میں 14، 2015ء میں 12، 2016ء میں 3، 2017ء میں 6، 2018ء میں 7، 2019ء میں 15، 2020ء میں 8، 2021ء میں 7 اور 2022ء میں اب تک 4 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق مہینوں کے اعتبار سے جنوری میں ایک، اپریل میں 4، مئی میں 15، جون میں 18، جولائی 24، اگست میں 9، ستمبر میں 10، اکتوبر میں 4 اور نومبر کے مہینوں میں 4 اموات رپورٹ ہوچکی ہیں۔

اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کراچی کا ضلع شرقی سب سے زیادہ متاثرہ ضلع ہے جہاں نیگلیریا سے 26 اموات ہوچکی ہیں، ضلع وسطی میں نیگلیریا کے 22، ضلع غربی میں 17، ضلع کورنگی میں 9، ضلع جنوبی اور ملیر میں 4 چار، حیدرآباد میں 2، ضلع کیماڑی، نواب شاہ، ٹنڈو الہیار، ٹھٹھہ اور عمر کوٹ میں ایک ایک اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔

محکمہ صحت سندھ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ضلع شرقی میں گلستان جوہر، سعدی ٹاؤن، گلشن اقبال اور کڈنی ہل ہاٹ اسپاٹس ہیں، اسی طرح ضلع وسطی میں نیو کراچی، شادمان ٹاؤن، بفرزون، گلبرگ اور کریم آباد ہاٹ اسپاٹس ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سخی حسن اور ناردرن بائی پاس والے ریزروائرز (ہائیڈرنٹس) کمپرومائزڈ ہیں، نارتھ ایسٹ کراچی ( این ای کے) ٹو پورا کمپرومائزڈ ہے اور اسی طرح یونیورسٹی کے سامنے پہاڑی پر موجود زیر زمین ٹینک بھی کمپرومائزڈ ہیں، یہی وہ پوری لائن ہے جو گلشن اقبال، گلستان جوہر، سعدی ٹاؤن، ناظم آباد، نارتھ کراچی، شادمان ٹاؤن، نیو کراچی اور دیگر علاقوں کو پانی فراہم کرتی ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق نیگلیریا کو برین ایٹنگ ایمیبا یعنی دماغ خور جرثومہ بھی کہتے ہیں اور اس کے نتیجے میں 98 فیصد افراد انتقال کرجاتے ہیں۔

عالمی اداروں کی رپورٹس

نیشنل سینٹر فار بایوٹیکنالوجی انفارمیشن کی رپورٹ کے مطابق 2013ء سے 2016ء چار سالوں کے دوران 42 اموات ہوئی ہیں۔

برطانوی ادارے دی لانسیٹ کی 2020ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نیگلیریا کا پہلا کیس کراچی میں 2008ء میں رپورٹ ہوا اور 2019ء تک 12 سال کے دوران کراچی میں 146 کیسز رپورٹ ہوئے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف کراچی میں نیگلیریا سے ہونیوالی اموات امریکا سے کہیں زیادہ ہیں، امریکا میں 1962ء سے 2020ء تک 58 برس کے دوران نیگلیریا کے 151 کیسز رپورٹ ہوئے۔

دی لانسیٹ کی رپورٹ کے مطابق امریکا میں سب سے زیادہ کیسز 14 سال سے کم عمر بچوں میں رپورٹ ہوئے جبکہ پاکستان میں ہونیوالی زیادہ تر اموات 26 سے 45 سال کی عمر کے افراد کی ہوئیں، اور اس بات کا قوی امکان ہے کراچی میں رپورٹ ہونیوالی نیگلیریا کی جینیاتی طور پر تبدیل شدہ قسم ہو، زیادہ تر کیسز گرمیوں اور مون سون سے قبل رپورٹ ہوئے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گرمیوں کا بڑھتا ہوا دورانیہ اور طویل مرطوب موسم نیگلیریا جرثومے کو نشو و نما کیلئے سازگار ماحول فراہم کر رہا ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق نیگلیریا فاؤلیری عام طور پر سوئمنگ پولز، ندیوں، جھیلوں میں موجود ہوتا ہے اور انسانوں میں Primary Amebic Meningoencephalitis (PAM) نام کے ایک مہلک دماغی انفیکشن کا سبب بنتا ہے، یہ متعدی بیماری پوری دنیا میں پائی جاتی ہے اور اس کے درجنوں کیسز ہوچکے ہیں، کراچی میں ہونیوالی زیادہ تر اموات کی وجہ پانی میں کلورین کی مطلوبہ مقدار کا شامل نہ ہونا ہے۔

نیگلیریا فاؤلیری کیا ہے؟

دماغی و اعصابی بیماریوں کے ماہر پروفیسر عبدالمالک کے مطابق اگر بغیر کلورین ملے پانی میں موجود جرثومہ انسان کی ناک کے ذریعے دماغ تک پہنچ جائے تو یہ تیزی سے دماغ کو کھانا شروع کردیتا ہے، اس کی علامات ایک ہفتے بعد ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں اور دو یا تین ہفتے میں متاثرہ شخص انتقال کرجاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ عموماً انسان کے انتقال کے بعد اس بیماری کی تشخیص ہوپاتی ہے یا اس وقت تشخیص ہوتی ہے جب انسان کے بچنے کے امکانات بالکل ختم ہوجاتے ہیں، اس بیماری کی علامات میں سر درد، بخار، متلی، الٹی، گردن میں اکڑن، تبدیل شدہ ذہنی کیفیت، فریب نظر، کوما، الجھن، لوگوں اور اردگرد کے ماحول پر توجہ نہ دینا، توازن کا کھو جانا، دورے پڑنا اور بعض اوقات بھری ہوئی ناک شامل ہیں۔

پروفیسر عبدالمالک نے سماء ڈیجیٹل کو بتایا کہ نیگلیریا فاؤلری ایمیبا کی ایک قسم ہے، جو دوسروں سے خوراک حاصل کرتا ہے، یہ بغیر کلورین ملے میٹھے پانی میں پایا جاتا ہے اور عام طور پر تالاب، سوئمنگ پول یا گھر میں پانی کی ٹنکیوں میں ملتا ہے، یہ جرثومہ ناک کے ذریعے انسانی دماغ میں داخل ہوکر دماغ کا اگلا حصہ کھانا شروع کر دیتا ہے، اسی لیے اسے دماغ خور جرثومہ بھی کہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیگلیریا فاؤلری سے متاثر ہونیوالے فرد کو پہلے ہلکا سر درد ہوتا ہے، جس کے بعد غنودگی طاری ہونے لگتی ہے، طبیعت زیادہ خراب ہونے پر جب اسپتال لایا جاتا ہے تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور تب تک یہ جرثومہ متاثرہ شخص کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکا ہوتا ہے، اس جرثومے سے متاثر 98 فیصد افراد انتقال کرجاتے ہیں۔

آغا خان اسپتال کے متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر فیصل محمود نے سماء ڈیجیٹل کو بتایا کہ نیگلیریا گرمیوں میں زیادہ رپورٹ ہوتا ہے کیونکہ یہ گرم پانی میں زیادہ عرصہ تک رہتا ہے، یہ جرثومہ سردیوں میں ختم نہیں ہوتا بلکہ اس کی نشو و نما رک جاتی ہے، موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے جوں جوں گرمی بڑھ رہی ہے اس کا دورانیہ بھی بڑھتا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نیگلیریا ایسے پانی میں نشوونما پاتا ہے جس میں کلورین شامل نہ ہو یا کم ہو، یہ سیوریج ملے پانی اور اسٹور کئے ہوئے پانی میں بھی نشو و نما پاتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر فیصل محمود نے بتایا سیوریج ملے پانی میں چونکہ بیکٹریا ہوتے ہیں اور یہ نیگلیریا کی خوراک ہیں، اس لئے بغیر کلورین ملے اور سیوریج ملا پانی نیگلیریا کی نشوونما کیلئے زیادہ سازگار ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکا اور کراچی میں نیگلیریا سے ہونیوالی اموات کی وجوہات الگ الگ ہیں، امریکا میں ساری اموات کی ہسٹری سوئمنگ ہے اور ہمارے ہاں زیادہ تر کیسز گھروں میں فراہم کئے جانیوالے پانی میں کلورین کی مقدار کا نہ ہونا ہے، یہ چونکہ ناک کے ذریعے انسان کے دماغ تک پہنچتا ہے اس لئے یہ صرف وضو کرتے ہوئے ناک میں نہیں جاتا بلکہ نہاتے ہوئے بھی پانی ناک میں جاسکتا ہے، اس لئے نہاتے ہوئے بھی احتیاط کرنی چاہئے۔

ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ اس سے بچنے کیلئے شہریوں کو چاہئے کہ واٹرس ٹینکس میں کلورین کی گولیاں یا پھر کپڑے دھونے والا بلیچ ملائیں، بلیچ در اصل کلورین ہی ہے۔

احتیاطی تدابیر

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس جرثومے سے متاثر ہونے کے بعد علاج بہت مشکل ہے، اس لئے صرف احتیاط سے ہی اس مرض سے بچا جاسکتا ہے، اس کیلئے ضروری ہے کہ پانی میں کلورین کی مطلوبہ مقدار ملائی جائے، گھروں تک پہنچنے والے پانی میں 5 ملی گرام فی لیٹر کلورین موجود ہونی چاہئے۔

شہریوں کو چاہئے کہ وہ کلورین کی ٹیبلیٹس انڈر گراؤنڈ واٹر ٹینکس میں استعمال کریں، اگر کلورین نہیں ہے تو کپڑے دھونے کیلئے استعمال ہونے والے بلیچ سے بھی یہ جرثومہ ختم ہوجاتا ہے، اس لئے لوگ اپنے گھروں میں 500 سے 1500 گیلن والی ٹنکی میں بلیچ کے صرف 2 چمچ کا پیسٹ بنا کر ڈال دیں تو اس جرثومے کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

واٹر اینڈ سیوریج بورڈ

عالمی اداروں اور محکمہ صحت سندھ کی رپورٹس کے مطابق پانی کے سیمپلز میں کلورین کی مطلوبہ مقدار 0.5 پی پی ایم سے کم رہی ہے، عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ پانی میں کلورین کی مطلوبہ مقدار 0.5 پی پی ایم ہونی چاہئے، اس حوالے سے محکمہ صحت سندھ معتدد بار واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو خطوط بھی لکھ چکا ہے۔

واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے چیف کیمسٹ محمد یحییٰ نے سماء ڈیجیٹل کو بتایا کہ ایسا نہیں ہے کہ ہم پانی میں کلورین نہیں ملاتے، کلورین ملائی جاتی ہے لیکن صرف کلورین ملانا مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ کلورین کی مطلوبہ مقدار کو صارفین کے گھروں تک برقرار رکھنا مسئلہ ہے، کلورین کی مقدار کو برقرار رکھنے کیلئے کچھ شرائط ہوتی ہیں، ہمارا سسٹم پرانا ہے لیکجز کے مسائل ہیں، ہمارے ہاں پانی کی فراہمی کیلئے 40 سے 100 پی ایس آئی پریشر ہوتا ہے، پانی کا جو پریشر درکار ہوتا ہے، کلورین کی مقدار کو برقرار رکھنے کیلئے وہ پریشر نہیں مل پاتا کیونکہ گلی محلوں میں لوگ پمپس کے ذریعے اپنے گھروں میں پانی کھینچ لیتے ہیں، جس کی وجہ سے کلورین کی مقدار متاثر ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح ہمارے اکثر پمپ ہاؤسز اوپن ہیں، جس کی وجہ سے کلورین کی مقدار برقرار نہیں رہ پاتی، ہمارے 30 سے 35 پمپ ہاؤسز اور آدھے سے زیادہ ہائیڈرنٹس ایسے ہیں جنہیں فلٹریشن پلانٹ سے پانی نہیں آرہا۔

واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے چیف کیمسٹ کا کہنا ہے کہ ہمارا رواں سال کلورینیشن کا بجٹ 17 کروڑ روپے ہے، اس وقت شہر میں 170 پمپ ہاؤسز ہیں، اگر واٹر بورڈ محکمہ صحت کے حوالے بھی کردیا جائے تو وہ بھی اسے نہیں درست کرسکتے، ہمارا سارا نظام زیر زمین ہے، اگر اسے درست کرنے لگیں تو پورا کراچی کھودنا پڑجائے گا اور 20 سال لگ جائیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں محمد یحییٰ نے کہا کہ ہم نے اپنی بھی ایک اسٹڈی کرائی ہے اور اس کے بعد اب ایک پائیلٹ پراجیکٹ شروع کیا ہے جس کے تحت شہر کے 25 پمپنگ اسٹیشنز پر کے ڈبلیو ایس ایس آئی پی کے ذریعے سوڈیم ہائیڈرو کلورائیڈ کی بوسٹنگ کرائی جائے گی، اس طرح اگلے مرحلے میں اسے 25 سے بڑھا کر 50 کردیا جائے گا اور اگر یہ پراجیکٹ کامیاب ہوتا ہے تو پھر اسے آہستہ آہستہ شہر کے تمام پمپنگ ہاؤسز تک پھیلا دیں گے۔

چیف کیمسٹ کا کہنا تھا کہ سردیوں میں نیگلیریا مرتا نہیں ہے بلکہ اس کی نشوونما رک جاتی ہے، پھر سردیوں میں کلورین بھی اُڑتی نہیں ہے، اس لئے سردیوں میں نیگلیریا کے کیسز نہیں آتے یا امکانات کم سے کم ہوتے ہیں۔

چیف انجینئر (واٹر) دھابیجی محمد انتخاب راجپوت کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں کلورینیشن فلٹرپلانٹس پر ہوتی ہے، ہم ڈملوٹی ویلز پر کلورینیشن نہیں کرتے، ویسے بھی یہ کنویں سوکھ چکے ہیں، جو ایک دو باقی ہیں وہاں بھی پانی دھابیجی سے ہی آتا ہے اور یہیں کی مقامی آبادی کو زرعی زمینوں اور ملیر کے علاقوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔

محمد انتخاب نے بتایا کہ ہم پمپنگ اسٹیشنز اور فلٹر پلانٹس پر پانی پمپ کرنے سے پہلے ایک پی پی ایم اور پمپ کرنے کے بعد 2 پی پی ایم کلورین ملاتے ہیں، ہماری کوشش ہوتی ہے کہ جب گھروں تک پانی پہنچے تو پانی میں 0.25 پی پی ایم سے 0.5 پی پی ایم تک کلورین موجود ہو۔

پاکستان

HEALTH

Sindh Police

NAEGLERIA FOWLERI

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div