غریبوں کو سستی روٹی دینے کیلئے بیرون ملک سے فنڈنگ ہوتی رہی، محمود الرشید کا بیان
صوبائی وزیر بلدیات محمود الرشید نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کی تحقیقات میں ایف آئی اے کو جواب دیا ہے کہ غریبوں کو سستی روٹی دینے کیلئے بیرون ملک سے بھی فنڈنگ ہوتی رہی، سستا تندور پروگرام کے تحت چندہ جمع کی۔
ایف آئی اے نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں آج صوبائی وزیر بلدیات میاں محمود الرشید کو طلب کر رکھا تھا، محمود الرشید کے نام پر پی ٹی آئی کے دو اکاؤنٹس ہونے پر انہیں طلب کیا گیا تھا۔
محمود الرشید آج ایف آئی اے لاہور دفتر پہنچے، جہاں انہوں نے ایف آئی اے کی تفتیشی ٹیم کے ممنوعہ فنڈنگ پر سوالات کے جوابات پر بیان ریکارڈ کرایا۔
میاں محمود الرشید ایف آئی اے کے کارپوریٹ بنکنگ سرکل کے سامنے پیش ہوئے، تفتیشی ٹیم نے لاہور کے 3 اکاؤنٹس میں 78 کروڑ روپے کی منتقلی پر سوالات کیے۔
محمود الرشید نے ابتدائی بیان میں موقف اختیار کیا کہ 2008 اور 2009 میں سستا تندور پروگرام شروع کیا جس کیلئے بیرون ملک سے بھی رقم ملی، سستا تندور پروگرام کے تحت چندہ جمع کیا، غریبوں کو سستی روٹی دینے کیلئے بیرون ملک سے بھی فنڈنگ ہوتی رہی۔
ایف آئی اے دفتر کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے میاں محمود الرشید کا کہنا تھا کہ بینک اکاؤنٹس کی مکمل تفصیلات اور ریکارڈ اکٹھا کیا جا رہا ہے، سوالنامہ موصول ہونے پر تفصیلی جواب دیں گے۔
ممنوعہ فنڈنگ کیس میں ایف آئی اے کی تحقیقات شروع
5 اگست کو ممنوعہ فنڈنگ کیس میں ایف آئی اے نے تحقیقات کا آغاز کرنے کا اعلان کیا تھا، اور بتایا کہ ایف آئی اے کی جانب سے تحریک انصاف کیخلاف 5 مختلف انکوائری ٹیمیں بنادی گئی ہیں۔
حکام ایف آئی اے کے مطابق تحریک انصاف کیخلاف پانچ مختلف انکوائری ٹیمیں بنادی گئی ہیں اور یہ انکوائری کمیٹیاں لاہور، کراچی، پشاور، اسلام آباد اور کوئٹہ میں کام کریں گی۔
حکام ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک، ایس ای سی پی سے متعلقہ ریکارڈ مانگا جائے گا، جب کہ پانچوں ٹیموں کو ہیڈکوارٹر میں ایک بڑی کمیٹی سپروائز کرے گی۔
فارن فنڈنگ کیس کیا ہے؟
پاکستان تحریک انصاف نے اپنے بانی رکن اکبر ایس بابر کو فارن فنڈنگ کے معاملے پر اختلاف کے بعد جماعت سے نکال دیا تھا۔
اکبر ایس بابر نے 2014ء میں پاکستان تحریک انصاف کی غیر ملکی فنڈنگ کے حوالے سے درخواست دائر کی تھی، الیکشن کمیشن میں اس کیس کی تقریباً 200 سماعتیں ہوئیں۔
پاکستان تحریک انصاف نے فارن فنڈنگ کے معاملے پر وکلاء کی 9 ٹیمیں تبدیل کیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 21 جون کو فریقین کے دلائل کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
اکبر ایس بابر کی جانب سے الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ تمام ریکارڈ اسٹیٹ بینک کی جانب سے فراہم کی گئیں 9 اکاؤنٹس کی تفصلات سے اکھٹا کیا گیا ہے جبکہ اکبر ایس بابر کی طرف سے 50 کے قریب پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس کی تفصیلات فراہم کرنے کیلئے اسٹیٹ بینک کو درخواست دی گئی تھی۔
الیکشن کمیشن کا فیصلہ
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ 2 اگست کو سنایا۔
فیصلے کے مندرجات
الیکشن کمیشن نے اپنے 70 سفحات پر مشتمل فیصلے میں 351 غیر ملکی کمپنیوں اور 34 افراد سے ملنے والی فنڈنگ کو ممنوعہ قرار دیا ہے۔
جن فنڈز کو ممنوعہ قرار دیا گیا ہے ان میں ووٹن کرکٹ اور برسٹل سروسز کے علاوہ امریکا، آسٹريليا اور کینیڈا سے ملنے والی فنڈنگ بھی شامل ہے۔
الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو شوکاز نوٹس جاری کیا ہے کہ کیوں نہ یہ تمام فنڈز ضبط کر لئے جائیں۔
3 رکنی بنچ نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ وہ فیصلے کی روشنی میں قانون کے مطابق اقدامات کرے اور فیصلے کی کاپی وفاقی حکومت کو بھی بھجوائی جائے۔
فیصلے میں کہا گيا ہے کہ اسٹیٹ بینک سے ملنے والی معلومات کے مطابق پی ٹی آئی نے صرف 8 بينک اکاؤنٹس ظاہر کئے جب کہ مجموعی طور پر 16 اکاؤٹس چھپائے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ 13 اکاؤنٹس پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے کھلوائے مگر ان سے لاتعلقی ظاہر کی، اکاؤنٹس ظاہر نہ کرنا پی ٹی آئی کی جانب سے آرٹیکل 17 (3) کی خلاف ورزی ہے۔
الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ 2008 سے 2013 تک عمران خان کے جمع کرائے گئے سرٹیفکیٹ صریحاً غلط ہیں، عمران خان کے سرٹیفکیٹ اسٹیٹ بینک ریکارڈ سے مطابقت نہیں رکھتے۔