ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ اسلام آبادہائیکورٹ میں چیلنج
تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کا ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ اسلام آبادہائیکورٹ میں چیلنج کردیا۔
تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن کا ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے، جس میں پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی کارروائی غیر قانونی قرار دینے کی استدعا کردی ہے۔
تحریک کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل عمر ایوب کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کا شوکاز نوٹس بھی کالعدم قرار دیا جائے۔
درخواست میں تحریک انصاف نے اپنی درخواست میں الیکشن کمیشن کو فریق بناتے ہوئے استدعا کی گئی ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کا 2 اگست فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔
الیکشن کمیشن کا فیصلہ
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قرار دیا ہے کہ تحریک انصاف نے بیرون ملک سے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کئے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ 21 جون 2022ء کو محفوظ کیا تھا۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنایا۔
فیصلے کے مندرجات
الیکشن کمیشن نے اپنے 70 سفحات پر مشتمل فیصلے میں 351 غیر ملکی کمپنیوں اور 34 افراد سے ملنے والی فنڈنگ کو ممنوعہ قرار دیا ہے۔
جن فنڈز کو ممنوعہ قرار دیا گیا ہے ان میں ووٹن کرکٹ اور برسٹل سروسز کے علاوہ امریکا، آسٹريليا اور کینیڈا سے ملنے والی فنڈنگ بھی شامل ہے۔
الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو شوکاز نوٹس جاری کیا ہے کہ کیوں نہ یہ تمام فنڈز ضبط کر لئے جائیں۔
3 رکنی بنچ نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ وہ فیصلے کی روشنی میں قانون کے مطابق اقدامات کرے اور فیصلے کی کاپی وفاقی حکومت کو بھی بھجوائی جائے۔
فیصلے میں کہا گيا ہے کہ اسٹیٹ بینک سے ملنے والی معلومات کے مطابق پی ٹی آئی نے صرف 8 بينک اکاؤنٹس ظاہر کئے جب کہ مجموعی طور پر 16 اکاؤٹس چھپائے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ 13 اکاؤنٹس پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے کھلوائے مگر ان سے لاتعلقی ظاہر کی، اکاؤنٹس ظاہر نہ کرنا پی ٹی آئی کی جانب سے آرٹیکل 17 (3) کی خلاف ورزی ہے۔
الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ 2008 سے 2013 تک عمران خان کے جمع کرائے گئے سرٹیفکیٹ صریحاً غلط ہیں، عمران خان کے سرٹیفکیٹ اسٹیٹ بینک ریکارڈ سے مطابقت نہیں رکھتے۔
آخری سماعت میں کیا ہوا تھا؟
پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کی آخری سماعت 21 جون 2022ء کو ہوئی، اس دوران درخواست گزار اکبر ایس بابر کے مالی امور کے ماہر ارسلان وردگ نے عدالت کو بتایا کہ تحریک انصاف کو کینیڈا، امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا سے فنڈنگ ہوئیں، اس نے 11 اکاؤنٹس تسلیم کئے جو اس نے ظاہر نہیں کئے تھے، پی ٹی آئی نے بیرون ملک سے آئے کئی فنڈز کے ذرائع نہیں بتائے۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ڈونرز کی تفصیل نہ ہونے پر پی ٹی آئی وکیل انور منصور اپنے دلائل دے چکے ہیں۔ ان کے مطابق فنڈنگ کے وقت قانون میں ڈونر کی تفصیل دینا لازمی نہیں تھا۔
دوران سماعت کیس کے مدعی اکبر ایس بابر نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو جوابدہ بنانے کیلئے یہ بہترین موقع ہے، ایسی جماعتوں اور لیڈرز کو رول ماڈل ہونا چاہئے۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ ملک کیلئے جمہوریت سب سے ضروری ہے، جسے مضبوط بنانا ہے، ووٹرز کا اعتماد بحال کرنا ضروری ہے، یقینی بنائیں گے کہ سب کے ساتھ انصاف ہو۔
فنڈنگ کیس؛ کب کیا ہوا
پاکستان تحریک انصاف کے بانی رہنما اور کئی اہم پارٹی عہدوں پر فائز رہنے والے اکبر ایس بابر نے اپنی ہی جماعت کے خلاف نومبر 2014 میں الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی۔
درخواست میں موقف
اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے روبرو دائر درخواست میں موقف اختیار کیا کہ تحریکِ انصاف کو بیرونی ممالک سے بھاری رقوم حاصل ہوئیں لیکن یہ رقم غیرقانونی ذرائع سے آئی ہے۔ اس کے اصل ذرائع کا کسی کو معلوم نہیں۔
پاکستان تحریک انصاف نے سماعت رکوانے کے لیے ہر متعلقہ پلیٹ فارم سے رجوع کیا۔ یہاں تک کہ سماعت کے دوران کم از کم 8 وکیل تبدیل بھی ہوئے۔
اگست 2017 میں الیکشن کمیشن نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو اکاؤنٹس کی تفصیلات پیش کرنے کا حکم دیا۔
26 میں سے 18 اکاؤنٹس بے نامی
الیکشن کمیشن کے روبرو پاکستان تحریکِ انصاف کے مختلف کمرشل بینکوں میں 26 بینکوں کی تفصیلات پیش کی گئیں جن میں سے صرف 8 ظاہر شدہ تھے۔
26 میں سے 18 اکاؤنٹس بے نامی تھے جن میں بیرون ملک سے آنے والی رقوم جمع کی جاتی رہی لیکن یہ فنڈنگ کہاں خرچ ہوئی، اس بارے میں کوئی تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔
الیکشن کمیشن نے تحقیقات کیلئے مارچ 2018 میں اسکروٹنی کمیٹی قائم کی جس نے 96 مختلف اجلاس منعقد کئے اور اگست 2020 میں اپنی رپورٹ الیکشن کمیشن کے روبرو جمع کرائی لیکن الیکشن کمیشن نے اسے مسترد کردیا جس کے بعد رواں برس جنوری میں حتمی رپورٹ جمع کروائی۔
رپورٹ میں کیا تھا
اسکروٹنی کمیٹی کی حتمی رپورٹ کے مندرجات کے مطابق پی ٹی آئی کے 65 بینک اکاؤنٹس سامنے آئے جن میں سے صرف 12 کے بارے میں کمیشن کو آگاہ کیا گیا اور مبینہ طور پر 53 اکاؤنٹس چھپائے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے 5 سال کے دوران ملنے والی 32 کروڑ کی تفصیلات چھپائی۔
21 جون 2022 کو سماعت مکمل
الیکشن کمیشن نے کم و بیش 7 سال 7 ماہ کی سماعتوں کے بعد تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ محفوٓظ کرلیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ
اپریل 2022 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے فارن فنڈنگ کیس کا فیسلہ 30 روز میں سنانے کا حکم دیا تھا۔
تحریک انصاف نے اس فیسلے کے خلاف نظر ثانی اپیل دائر کی، عدالت عالیہ نے فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے قرار دیا کہ الیکشن کمیشن پر شک کی گنجائش نہیں کہ تمام جماعتوں سے ایک سا برتاؤ ہوگا، توقع ہے کہ الیکشن کمیشن تمام جماعتوں کے کیسز مناسب وقت میں نمٹائے گا۔
پی ٹی آئی کی مخالف جماعتوں کا مطالبہ
مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) کی جانب سے بارہا الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا جاتا رہا کہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ جلد از جلد سنایا جائے۔
فنانشل ٹائمز کی رپورٹ
29 جولائی کو برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا کہ ابراج گروپ کے بانی عارف نقوی نے برطانیہ میں خیراتی مقاصد کے لئے صاحب ثروت لوگوں سے پیسے جمع کرکے پاکستان تحریک انصاف کے بینک اکاؤنٹ میں جمع کرائے۔
اس کے علاوہ یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ یو اے ای کے ایک شہزادے کی جانب سے دیئے گئے 20 لاکھ ڈالر میں سے بھی 12 لاکھ ڈالرز 2 قسطوں میں پاکستان منتقل کر دیے گئے۔
حکومتی مطالبات
کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد حکموتی اتحاد میں شامل جماعتیں الیکشن کمیشن سے فیصلہ سنسنے کا بارہا مطالبہ کرتی رہیں لیکن فنانشل ٹائمز کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد ان کی جانب سے مطالبات میں تیزی آگئی۔