ہیپاٹائٹس ہر گھنٹے 4 پاکستانیوں کی زندگی چھین لیتا ہے، ماہرین

روزانہ 96 افراد لقمۂ اجل بن رہے ہیں، ڈاکٹرز
Aug 02, 2022

ماہرین صحت کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہر سولہویں منٹ میں ایک پاکستانی ہیپاٹائٹس اور 31ویں منٹ میں ایک عورت زچگی کے دوران زندگی کی بازی ہار جاتی ہے، ان زندگیوں کو بچایا جاسکتا ہے کیونکہ یہ امراض قابل علاج ہیں، یہ قیمتی جانیں ریت کی طرح ہمارے ہاتھوں سے پھسل رہی ہیں، ہم بے بس ہیں۔

ڈاؤ یونیورسٹی کی پرو وائس چانسلر پروفیسر نصرت شاہ نے ڈاؤ میڈیکل کالج کے معین آڈیٹوریم میں ورلڈ ہیپاٹائٹس ڈے کی مناسبت سے منعقدہ سیمینار سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے معاشرے میں یہ سانحات کتنی خاموشی سے رونما ہورہے ہیں، ایک روز میں 50 عورتیں دوران زچگی مر جاتی ہیں لگ بھگ 96 افراد ہیپاٹائٹس کی مختلف اقسام کا شکار ہوکر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، نہ کوئی خبر بنتی ہے نہ سرکاری ادارے توجہ دیتے ہیں، یہ خاموشی ہمیں کن پستیوں میں دھکیل رہی ہے، ہم تو اپنے پڑوسی ممالک بھارت، ایران، بنگلہ دیش سے بھی پیچھے جارہے ہیں، اس پر ہمیں سوچنا اور کچھ کرنا ہوگا، ہمارا شمار افریقا کے پسماندہ ممالک کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

سیمینار کا اہتمام پاکستان سوسائٹی آف گیسٹرو اینٹرولوجی نے ورلڈ گیسٹرو اینٹرولوجی آرگنائزیشن کے اشتراک سے کیا تھا، جس میں سیشن چیئر کے فرائض پروفیسر سعد خالد نیاز اور پروفیسر خالد محمود نے ادا کئے جبکہ پروفیسر امان اللہ عباسی، ڈاکٹر بدر فیاض زبیری، ڈاکٹر ہما قریشی، ڈاکٹر سجاد جمیل، ڈاکٹر عبدالقادر میمن اور ڈاکٹر ماجد نے اپنے مقالے پیش کئے۔

آگہی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر سجاد جمیل نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کے اندازے کے مطابق ہیپاٹائٹس اے سے ایک لاکھ اور ہیپاٹائٹس ای سے 60 ہزار افراد سالانہ لقمۂ اجل بن رہے ہیں جبکہ حاملہ خواتین میں شرح اموات اس سے کئی گنا زیادہ ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں بچوں میں ہونیوالے وائرل ہیپاٹائٹس کا 50 سے 60 فیصد ہیپاٹائٹس اے پر مشتمل ہوتا ہے، ابتدائی مراحل میں علامات ظاہر ہونے کی وجہ سے 96 فیصد افراد 5 سال کی عمر تک ہیپاٹائٹس اے کے سامنے مزاحمت رکھتے ہیں دوسری طرف بالغ افراد میں ہیپاٹائٹس اے 3.5 سے 4 فیصد پیچیدہ ہیپاٹائٹس کا باعث بنتا ہے اور تقریباً 98 سے 100 فیصد بالغ افراد کو جوانی میں ہیپاٹائٹس اے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ڈاکٹر سجاد جمیل کا کہنا ہے کہ ہیپاٹائٹس اے کی علامات میں بخار، ہاضمے کی خرابی، شدید زرد پیشاب، کمزوری، الٹی، پیٹ کے دائیں جانب درد ہونا، متلی اور چکر شامل ہیں۔ ہیپاٹائٹس سے بچنے کے طریقوں کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ویکسین کرانا، پھل اور سبزیاں دھو کر کھانا، اچھی طرح پکا کر کھانا، ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق دوائیں استعمال کرنا، برتن دھو کر استعمال کرنا شامل ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ بچوں کو 15 ماہ تک کی عمر تک 6 دفعہ ویکسین دینے سے انہیں 10 جان لیوا بیماریوں سے محفوظ کیا جا سکتا ہے، ایک رپورٹ کے مطابق ہیپاٹائٹس کے 2735 مریضوں میں سے 232 اسپتال میں داخل ہوتے ہیں جن میں سے 30 مریض جگر کی خرابی کا شکار ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر سجاد کا کہنا ہے کہ بالغوں میں 20 سے 22 فیصد اور بچوں میں 2.4 فیصد پیچیدہ ہیپاٹائٹس کی وجہ ہیپاٹائٹس ای ہے، ہیپاٹائٹس ای کے باعث اموات کی شرح 0.4 سے 4 فیصد تک ہے جبکہ دوران حمل یہ شرح کئی گنا 16 سے 33 فیصد تک بڑھ جاتی ہے، گندے پانی، گٹر والے پانی کے باعث ہیپاٹائٹس ای کا پھیلاؤ پاکستان میں شدت اختیار کررہا ہے۔

ایک سروے کے مطابق سندھ میں خصوصاً کراچی، حیدرآباد، لاڑکانہ، سکھر، اور میرپورخاص گندے اور آلودہ پانی کی فراہمی کے باعث سب سے زیادہ ہیپاٹائٹس اے اور ای کے خطرے سے دوچار ہیں۔

ڈاکٹر ہما قریشی نے کہا کہ ہیپاٹائٹس سی سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں چین کے بعد پاکستان آتا ہے، 2019ء کی ایک رپورٹ کے مطابق خون کی منتقلی کے باعث ہیپاٹائٹس سی ہونے کا خطرہ 14.8 فیصد شرح کے ساتھ سب سے زیادہ ہے، دوسرے نمبر پر سرنج یا انجکشن کا استعمال، اسپتال کی ہسٹری، دانتوں کا علاج، سرجیکل ہسٹری وغیرہ شامل ہیں۔

حالیہ سروے 2020ء کے مطابق پاکستان میں ہیپاٹائٹس سی سے ایک لاکھ 64 ہزار نئے کیسز رپورٹ ہوئے، موجودہ رفتار کے ساتھ ہیپاٹائٹس سی کا خاتمہ ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ صوبوں کو پاکستان میں ہیپاٹائٹس سی کے خاتمے کیلئے سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے، اسپتالوں میں تمام مریضوں کا ہیپاٹائٹس سی کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے لیکن مثبت پائے جانے والوں کو علاج کے مقامات پر منتقل نہیں کیا جاتا، ہم ان مریضوں کا معالج سے رابطہ کرانے کا موقع گنوا رہے ہیں۔

ڈاکٹر ہما نے مزید بتایا کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس سی کا بہترین اور سستا علاج ہورہا ہے، منہ کے ذریعے علاج سے 98 فیصد افراد 12 ہفتوں کے اندر ٹھیک ہو جاتے ہیں، ہمارے لوگوں کی کو چاہئے کہ ٹیسٹ کرائیں تاکہ ہم جلد از جلد ہیپاٹائٹس سے نجات حاصل کر سکیں۔

ڈاکٹر بدر فیاض زبیری نے کہا کہ عالمی ادارۂ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 2019ء میں 296 ملین افراد دائمی ہیپاٹائٹس بی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، جن میں ہر سال 1.5 ملین متاثرین کا اضافہ ہورہا ہے، مذکورہ اعداد و شمار کے مطابق 2019ء میں ہیپاٹائٹس بی کے نتیجے میں 8 لاکھ 20 ہزار اموات ہوئیں، جن میں زیادہ تر اموات سروسز اور ہیپاٹو سیلولرکارسی نوما سے ہوئیں، ہیپاٹائٹس بی کو محفوظ اور مؤثر ویکسین کے ذریعے روکا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کے پھیلاؤ میں فیملی ہسٹری کا بھی اہم کردار ہے، مریض کی اسسمنٹ کے وقت فیملی ہسٹری کو نظر انداز نہ کیا جائے، عالمی سطح پر ایک اندازے کے مطابق 51 ملین افراد کو دائمی ہیپاٹائٹس سی کا انفیکشن ہے جن میں ہر سال تقریباً ڈیڑھ ملین نئے مریضوں کا اضافہ ہورہا ہے، 3.2 ملین نو عمر اور دائمی ہیپاٹائٹس سی انفیکشن والے بچے ہیں، اینٹی وائرل دوائیں ہیپاٹائٹس سی انفیکشن والے 95 فیصد سے زیادہ افراد کو ٹھیک کر سکتی ہیں لیکن تشخیص اور علاج تک رسائی نہایت کم ہے، فی الحال ہیپاٹائٹس سی کیخلاف کوئی مؤثر ویکسین نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہیپاٹائٹس سی سے متاثرہ خواتین کے ہاں پیدا ہونیوالے تمام بچوں کو 18 ماہ کی عمر سے ہیپاٹائٹس سی کیلئے ٹیسٹ کرایا جانا چاہئے، حفاظت اور افادیت کے اعداد و شمار کی عدم موجودگی میں حمل کے دوران ہیپاٹائٹس سی کے علاج کی سفارش نہیں کی جاتی، ہیپاٹائٹس سے متاثرہ خواتین کو دودھ پلانے سے منع نہیں کیا جاتا البتہ نپل سے خون رسنے کی صورت میں ماہرین سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔

ڈاکٹر عبدالقادر میمن نے کہا کہ ہیپاٹائٹس بی کے ساتھ ہیپاٹائٹس ڈی وائرس کی شرح اموات 20 فیصد ہے جو کہ ہیپاٹائٹس کی تمام اقسام میں سب سے زیادہ ہے، 48 ملین افراد اسی وائرس کا شکار ہیں، بدقسمتی سے ہیپاٹائٹس ڈیلٹا کے علاج میں چیلنجز درپیش ہیں، ہیپاٹائٹس ڈیلٹا پچھلی دہائیوں میں ایک نظر انداز کی جانے والی بیماری رہی، جس کی بنیادی وجہ ایک مؤثر اور بڑے پیمانے پر قابل اطلاق اینٹی وائرل علاج کی کمی ہے، نئی ادویات کی دستیابی ہیپاٹائٹس ڈیلٹا کے مریضوں کی شناخت کیلئے ایک مضبوط ترغیب ہوسکتی ہے جو تھیراپی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

HEALTH

Hepatitis

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div