تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈز حاصل کئے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ

چیئرمین پی ٹی آئی کے فنڈنگ صحیح ہونے کے سرٹیفکیٹ درست نہیں تھے، فیصلہ

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قرار دیا ہے کہ تحریک انصاف نے بیرون ملک سے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کئے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ 21 جون 2022ء کو محفوظ کیا تھا۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنایا۔

فیصلے کے مندرجات

الیکشن کمیشن نے اپنے 70 سفحات پر مشتمل فیصلے میں 351 غیر ملکی کمپنیوں اور 34 افراد سے ملنے والی فنڈنگ کو ممنوعہ قرار دیا ہے۔

جن فنڈز کو ممنوعہ قرار دیا گیا ہے ان میں ووٹن کرکٹ اور برسٹل سروسز کے علاوہ امریکا، آسٹريليا اور کینیڈا سے ملنے والی فنڈنگ بھی شامل ہے۔

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو شوکاز نوٹس جاری کیا ہے کہ کیوں نہ یہ تمام فنڈز ضبط کر لئے جائیں۔

3 رکنی بنچ نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ وہ فیصلے کی روشنی میں قانون کے مطابق اقدامات کرے اور فیصلے کی کاپی وفاقی حکومت کو بھی بھجوائی جائے۔

فیصلے میں کہا گيا ہے کہ اسٹیٹ بینک سے ملنے والی معلومات کے مطابق پی ٹی آئی نے صرف 8 بينک اکاؤنٹس ظاہر کئے جب کہ مجموعی طور پر 16 اکاؤٹس چھپائے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ 13 اکاؤنٹس پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے کھلوائے مگر ان سے لاتعلقی ظاہر کی، اکاؤنٹس ظاہر نہ کرنا پی ٹی آئی کی جانب سے آرٹیکل 17 (3) کی خلاف ورزی ہے۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ 2008 سے 2013 تک عمران خان کے جمع کرائے گئے سرٹیفکیٹ صریحاً غلط ہیں، عمران خان کے سرٹیفکیٹ اسٹیٹ بینک ریکارڈ سے مطابقت نہیں رکھتے۔

فارن فنڈنگ کیس کیا ہے؟

پاکستان تحریک انصاف نے اپنے بانی رکن اکبر ایس بابر کو فارن فنڈنگ کے معاملے پر اختلاف کے بعد جماعت سے نکال دیا تھا۔

اکبر ایس بابر نے 2014ء میں پاکستان تحریک انصاف کی غیر ملکی فنڈنگ کے حوالے سے درخواست دائر کی تھی، الیکشن کمیشن میں اس کیس کی تقریباً 200 سماعتیں ہوئیں۔

پاکستان تحریک انصاف نے فارن فنڈنگ کے معاملے پر وکلاء کی 9 ٹیمیں تبدیل کیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 21 جون کو فریقین کے دلائل کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

اکبر ایس بابر کی جانب سے الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ تمام ریکارڈ اسٹیٹ بینک کی جانب سے فراہم کی گئیں 9 اکاؤنٹس کی تفصلات سے اکھٹا کیا گیا ہے جبکہ اکبر ایس بابر کی طرف سے 50 کے قریب پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس کی تفصیلات فراہم کرنے کیلئے اسٹیٹ بینک کو درخواست دی گئی تھی۔

آخری سماعت میں کیا ہوا تھا؟

پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کی آخری سماعت 21 جون 2022ء کو ہوئی، اس دوران درخواست گزار اکبر ایس بابر کے مالی امور کے ماہر ارسلان وردگ نے عدالت کو بتایا کہ تحریک انصاف کو کینیڈا، امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا سے فنڈنگ ہوئیں، اس نے 11 اکاؤنٹس تسلیم کئے جو اس نے ظاہر نہیں کئے تھے، پی ٹی آئی نے بیرون ملک سے آئے کئی فنڈز کے ذرائع نہیں بتائے۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ڈونرز کی تفصیل نہ ہونے پر پی ٹی آئی وکیل انور منصور اپنے دلائل دے چکے ہیں۔ ان کے مطابق فنڈنگ کے وقت قانون میں ڈونر کی تفصیل دینا لازمی نہیں تھا۔

دوران سماعت کیس کے مدعی اکبر ایس بابر نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو جوابدہ بنانے کیلئے یہ بہترین موقع ہے، ایسی جماعتوں اور لیڈرز کو رول ماڈل ہونا چاہئے۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ ملک کیلئے جمہوریت سب سے ضروری ہے، جسے مضبوط بنانا ہے، ووٹرز کا اعتماد بحال کرنا ضروری ہے، یقینی بنائیں گے کہ سب کے ساتھ انصاف ہو۔

ممنوعہ فنڈنگ کیا ہے؟

سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا ممنوعہ فنڈنگ کی وضاحت کرتے ہوئے کہنا ہے کہ کوئی بھی غیر ملکی کمپنی یا فرد جو کہ پاکستانی نہ ہو اس سے کوئی بھی سیاسی جماعت اگر پارٹی کے امور چلانے کیلئے فنڈز حاصل کرے تو یہ ممنوعہ فنڈنگ کے زمرے میں آتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ الیکشن کمیشن ایکٹ 2017ء کی شق 204 اس بارے میں بڑی واضح ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اگر ایک ڈالر بھی ممنوعہ فنڈنگ کی مد میں آجائے تو الیکشن کمیشن کو یہ فنڈز ضبط کرنے کا اختیار ہے۔

کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ کی 204 سے 212 تک شقیں ممنوعہ فنڈنگ کے بارے میں ہی ہیں جبکہ الیکشن ایکٹ کی شق 215 اس بارے میں کہتی ہے کہ اگر کسی سیاسی جماعت کی ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہو جائے تو ای سی پی کے پاس اس جماعت کا انتخابی نشان واپس لینے کا اختیار ہے، جس کے بعد ایسی سیاسی جماعت جس پر ممنوعہ ذرائع سے حاصل فنڈز کا الزام ثابت ہوجائے تو اس جماعت کی رجسٹریشن بھی منسوخ ہوجاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی پاکستانی غیر ملک میں مقیم ہے اور وہ پاکستانی شہریت کو چھوڑ کر اس ملک کی شہریت اختیار کرچکا ہے، اگر وہ بھی پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کو فنڈز دیتا ہے تو وہ بھی ممنوعہ فنڈنگ کے زمرے میں آتی ہے۔

کنور دلشاد نے مزید بتایا کہ اگر الیکشن کمیشن چاہے تو ایسی جماعت کو کالعدم قرار دلوانے کیلئے سپریم کورٹ کو ریفرنس بھجوا سکتا ہے۔

IMRAN KHAN

Foreign Funding Case

AKBAR S BABAR

PTI FOREIGN FUNDING CASE

ELECTION COMMISION OF PAKSITAN

Tabool ads will show in this div