کراچی ڈوب رہا ہے!

2060 سال تک ٹھٹہ، بدین اورکراچی سمندر برد ہوسکتے ہیں
اپ ڈیٹ 30 جولائ 2022 03:15pm

پاکستان اور بھارت ہمیشہ سے ایک دوسرے کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے رہے ہیں۔ لیکن اب ان دونوں دشمنوں کو اپنے آپ سے بھی کئی بڑے دشمن کا سامنا ہے۔

موسم، جو بدل رہا ہے اور اگر اس سے نمٹنے کے لئے کچھ نہ کیا گیا تو یہ بہت جلد پاکستان اور بھارت کے بڑے بڑے شہروں کو نگل جائے گا۔ کراچی، ٹھٹھہ بدین، ممبئی، چٹاگانگ جیسے بڑے شہروں کا کچھ سال بعد نام و نشان نہیں ملے گا اور صرف شہر ہی نہیں پورے پورے ملک بس قصہ پارینہ بن کر رہ جائیں گے۔

2015 میں یہ پیشگوئی ماہرین نے پارلیمنٹ کو بریفنگ دیتے ہوئے کی تھی اور بتایا تھا کہ 2060 تک سندھ کے ساحلی شہر ٹھٹہ، بدین اور کراچی سمندر برد ہوسکتے ہیں۔ البتہ کسی نے اس وقت اس خطرے پر کان نہ دھرے یہی وجہ ہے کہ اب ہم اس پیشگوئی کے عملی اثرات دیکھ رہے ہیں۔ ٹھٹھہ اور بدین کی بہت ساری زمین پہلے ہی سمندر میں ڈوب چکی ہے اور کراچی میں بھی جلد ہی ہمیں یہ صورتحال دکھائی دے گی۔ موسم کے بدلتے رنگ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

کراچی میں ہر سال کے ساتھ موسم گرما کا دورانیہ بڑھتا جا رہا ہے اور ہیٹ ویو میں بھی ہر سال اضافہ دیکھنے میں آرہاہے۔ اپریل میں کسی دور میں ہم بہار کا جشن مناتے تھے مگر اس سال اپریل میں درجہ حرارت 40 ڈگری سے بھی اوپر چلا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس بار صرف بہار کا جشن ہی ہوا۔۔۔بہار خود نہیں آئی۔ شاید آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو کہ اس سال بہار کا موسم ایک ہفتے پر بھی محیط نہیں رہا۔ پاکستان میں اس مرتبہ بھی موسم سرما کی آمد دیر سے ہوئی اور موسم گرما نے بہار کو آنے ہی نہیں دیا۔ جس کے بعد اب یہ غیر معمولی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ موسم کے یہ بدلتے رنگ اس بات کا ثبوت ہیں کہ حالات ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔ یہ سب اب تھمنے والا نہیں۔

اس خطرے سے صرف کراچی ہی دوچار نہیں۔ بھارت میں ممبئی، بنگلادیش کا چٹاگانگ اور دیگر کئی شہر بھی ہیں جو اس وقت ڈوبنے کے در پر ہیں۔ صرف یہی نہیں مالدیپ تو پورا ملک ہی اس خطرے سے جونج رہا ہے۔ اس سے متعلق پیشگوئی ہے کہ اس صدی کے آخر تک اس ملک کا نام و نشان تک مٹ جائے گا۔

مختصراً، موسمیاتی تبدیلیوں سے پوری دنیا کو ہی خطرہ ہے لیکن ہمارے ریجن میں اس کے اثرات سب سے پہلے اور سب سے بھیانک نظر آئیں گے۔ جس کا آغاز ہوچکا ہے۔ ابھی کراچی میں ہیٹ ویوز آتی ہیں۔ کچھ عرصے بعد یہ پورا شہر ہیٹ آئی لینڈ قرار دیئے جانے کے در پر ہے کیوں کہ یہاں ایسی کوئی چیز موجود نہیں جو کاربن کے اخراج کو روک سکے۔ ڈویلپمنٹ کے نام پر کنکریٹ کا جنگل سجادیا گیاہے۔ میدان ختم ہوچکے ہیں۔ ہائی اسکریپرز کا جال بچھاہے جو زمین کی گرمی کو ہوا میں محلق نہیں ہونے دیتا۔ کراچی کی زمین بھی سوکھ رہی ہے۔ زیرزمین پانی کی سطح کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ جس کے لئے رین ہار ویسٹنگ سسٹم کی ضرورت ہے۔

رین ہارویسٹنگ وہ نظام ہے جس کے تحت شہر کے مختلف مقامات میں بڑے بڑے کنویں کھودے جاتے ہیں تاکہ بارش کے پانی کو زیرزمین پہنچا جاسکے اور وقت ضرورت اس کو استعمال بھی کیا جاسکے مگر ہم رین ہارویسٹنگ کے بجائے بارش کا پانی نالوں کے ذریعے سمندر میں بہارہے ہیں جو کچھ ماہرین کے خیال میں اپنے آپ میں کہیں نہ کہیں بڑھتی بارشوں کی وجہ ہے۔

کچھ سائنسدان یہ مانتے ہیں کہ چونکہ زیادہ بارشوں کے باعث زیادہ پانی سمندر میں جارہا ہے اس لئے اییپوریشن زیادہ ہو رہی ہے۔ اور یہی بن موسم برسات کی وجہ ہے۔ بھلے ہی تمام ماہرین اس نظریے سے متفق نہیں البتہ یہ بھی بارشوں میں اضافہ کی کہیں نہ کہیں ایک وجہ ضرور ہے۔

یہاں پی ٹی آئی حکومت کو ضرور کریڈٹ دینا چاہیئے، جنہوں نے اپنے دور میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لئے کافی کوششیں کیں۔ بلین ٹری سونامی اس حوالے سے مثالی پراجیکٹ تھا لیکن یہ تمام اقدمات اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہیں کیوں کہ جس تیزی سے ہم درخت لگانہیں پارہے اس سے زیادہ تیزی سے ہمارے جنگل کاٹے جارہے ہیں۔

جس وقت پاکستان بنا تھا ہمارے کل رقبے کے 33فیصد پر جنگلات تھے جو اب کم ہوکر صرف 5 فیصد ہی رہ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان جنگلات کی کٹائی میں جنوبی ایشیا میں دوسرے نمبر پر آتا ہے اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کو سالانہ 26ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے اور اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو آنے والے سالوں میں حالات مزید بدتر ہوجائیں گے کیوں کہ پاکستان کی معیشت زیادہ انحصار شعبہ زراعت پر ہے۔ جو جی ڈی پی میں 21 فیصد حصہ ڈالتا ہے۔ یعنی ہماری کل افرادی قوت کا 45 فیصد زراعت سے منسلک ہے جبکہ برآمدات میں اس کا حصہ تقریباً 60فیصد بنتا ہے۔ لیکن بدلتے موسم نے پاکستان کی زراعت کو شدید نقصا پہنچایا ہے۔جس کے باعث پچھلے دو سال سے پاکستان کو گندم درآمد کرنا پڑرہی ہے۔

اب یہاں سوال یہ ہے کہ ایسے میں کیا کیا جائے؟

پارلیمنٹ نے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لئے 2012 میں ایک تفصیلی پالیسی مرتب دی تھی جسے “نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی آف پاکستان” کا نام دیا گیا۔ اس پالیسی کے تحت موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے لئے 100سے زائد سفارشات پیش کی گئیں لیکن افسوس۔ 10 سال گزرنے کے باوجود بھی اس کی بیشتر سفارشات پر عمل نہ ہوسکا۔ اس پالیسی کے تحت موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کےلئے ایسے ڈیجیٹل ماڈلز تیار کئے جانا تھے جن کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصانات کا بہتر طور پر اندازہ لگایا جاسکے۔ ساتھ ہی فصلوں کی ایسی اقسام کی تیاری یقینی بنائی جانا تھی جو زیادہ پیداوار دینے والی ہو، گرمی کے دباؤ کے خلاف مزاحمت کرسکے، بارشوں کے شدت کو جھیل سکے اور کیڑوں کے حملوں کا شکار بھی نہ ہو۔ اس کے ساتھ کمیونٹی کی سطح پر انوائرومنٹل اور فارسٹ پروٹیکشن کلبز کا قیام بھی عمل میں لایا جانا تھا۔ لیکن این سی سی پی کی 100 سے زیادہ پالیسی سفارشات میں سے زیادہ تر پر عمل ہی نہیں ہوسکا۔

18ویں ترمیم کے بعد تو صورتحال مزید بگڑ گئی جس نے ماحولیات سے متعلق زیادہ تر اختیارات صوبوں کو سونپ دیئے۔2018 میں ایک چھوٹی سی کامیابی ضرور ملی جب پلاننگ کمیشن کے تعاون سے وزارت آبی وسائل نے صوبوں کی رضامندی سے پہلی قومی پالیسی برائے آب مرتب کی لیکن افسوس 4 سال بعد بھی ہمیں اس تاریخی بلیو پرنٹ پر عمل کا نام و نشان دکھائی نہیں دیتا۔

حد تو یہ ہے کہ حکومت 2018 میں شروع ہونے والے اپنے فلیگ شپ منصوبے10 بلین ٹری سونامی پر پورے صفحے کے اشتہارات جاری کرتی رہی لیکن اس اقدام کی پیشرفت کے بارے میں کوئی قابل اعتبار ڈیٹا موجود نہیں ۔ اور تو اورحکومت 2019 میں منظور کی گئی اپنی الیکٹرک وہیکلز پالیسی کو بھی نافذ کرنے میں ناکام رہی۔ جس کے تحت پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے استعمال ہونےوالی ایک تہائی گاڑیوں کو الیکٹریکل وہیکلز پر کنورٹ کرنا تھا۔ یہ سب تو چھوڑیں ہم تو پلاسٹک بیگز پر پابندی پر بھی عمل نہیں کراسکے۔

مختصراً، اگر ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنا ہے تو اس مسئلے کو مسئلہ سمجھنا ہوگا۔ یہ واقعی ہمارے لئے قومی سلامتی سے بھی بڑا مسئلہ ہے کیوں کہ یاد رکھیں یہ زمین ہمارا گھر ہے اوراس پوری کائنات میں اس کے سوا ہمارے پاس رہنے کی کوئی جگہ نہیں۔

Abdul Mateen Siddiqui Jul 30, 2022 09:47pm
You are right explanation