ٹوٹی سڑکوں نے کراچی والوں کی کمر بھی توڑ ڈالی، مہروں کی بیماریاں بڑھنے لگیں

رکشہ میں سفر کرنیوالی خواتین بھی مہروں کی بیماریوں کا شکار

کراچی کی ٹوٹی سڑکیں اور خراب شاکس آبزربرز موٹر سائیکل اور رکشہ سواروں میں کولہے اور ریڑھ کی ہڈیوں میں درد اور مہروں کے کھسکنے کا سبب بن رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق موٹر سائیکل چلانے والے نوجوانوں کی اکثریت ریڑھ کے ہڈی کے درد اور ڈسک یعنی مُہروں کے کھسکنے کی شکایات کے ساتھ اسپتال آرہے ہیں، رکشوں میں سفر کرنیوالی خواتین کی اکثریت کو بھی انہی مسائل کا سامنا ہے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر 30 سال کی عمر کے نوجوانوں کا ایم آر آئی کیا جائے تو انہیں ڈی جینیریٹو اسپائن کی بیماری آئے گی، اس عمر میں ایک صحتمند ریڑھ کی ہڈی ہونی چاہئے اور ڈی جینیریٹو اسپائن تو 50 سال کی عمر کے بعد ہونی چاہئے۔

پاک امریکن آرتھرائٹس سینٹر کی سربراہ اور نامور رہیوموٹولوجسٹ ڈاکٹر صالحہ اسحاق نے سماء ڈیجیٹل کو بتایا کہ ہمارے پاس یومیہ ہر 4 مریضوں کے بعد ایک بائیکر یا خاتون ایسی آتی ہیں جنہیں ریڑھ کی ہڈی اور کولہے کی ڈسک کھسکنے کی شکایت ہوتی ہے، کراچی کی ٹوٹی ہوئی خراب سڑکیں، جگہ جگہ گڑھے اور کھلے گٹر کی وجہ سے نوجوانوں میں یہ شکایات عام ہوتی جارہی ہیں، ساتھ ساتھ موٹرسائیکل کے خراب شاکس آبزربرز بھی ان بیماریوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کراچی کی خراب ٹوٹی سڑکوں کے باعث سفر میں تاخیر سے گاڑیوں میں ڈلیوریز (بچوں کی پیدائش) کے کیسز بھی ہوتے ہیں، اس لئے حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ سڑکوں کو ٹھیک کیا جائے اور بائیکرز کو بھی چاہئے کہ وہ احتیاط کے ساتھ بائیک چلائیں، صاف ماحول اور اچھی سڑکیں ہر شہری کا حق ہے، ہم لوگوں کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ گھروں سے نکلنا چھوڑ دیں۔

ڈاکٹر صالحہ اسحاق نے کہا کہ ایسے افراد جنہیں کمر درد کے مسائل ہوں وہ بائیک اور رکشہ پر سفر کرنے سے گریز کریں، بائیکرز کو چاہئے کہ وہ احتیاط کریں، گڑھوں اور خراب سڑکوں پر بائیک بھگانے سے گریز کریں۔

ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز سے وابستہ رہیوموٹولوجسٹ ڈاکٹر تابع رسول نے کہا کہ بائیک اور رکشہ کے خراب شاکس اور سڑکوں کی خستہ حالی کی وجہ سے ڈسک کھسکنے اور اس کی وجہ سے پھر کمپریشنز ہوتی ہیں، کمر میں جہاں سے ہماری نسیں گزرتی ہیں، بعض دفعہ لوگوں کو انڈر جینیٹک کوئی پرابلم ہو رہی ہوگی جو ظاہر نہیں ہوئی اور جھٹکا لگنے یا کسی حادثے کی صورت میں انجری ہوگی اور وہ آٹو امیون ڈیزیز کا شکار ہوجاتے ہیں، سڑکوں کی خستہ حالی، ٹوٹ پھوٹ اور گڑھوں کی وجہ سے بیک پین کے کیسز بڑھ گئے ہیں، سڑکوں کی وجہ سے میکینکل بیک پین تو بہت زیادہ ہے، بعض کیسز میں اتنی شدت آجاتی ہے کہ ان کی روز مرہ زندگی متاثر ہوجاتی ہے۔

معروف نیورولوجسٹ ڈاکٹر نادر علی سید نے سماء ڈیجیٹل کو بتایا کہ ایسے افراد جو زیادہ جھک کر کام کرتے ہیں یا سفر میں خراب سڑکوں کی وجہ سے جھٹکے لگتے ہیں، انہیں زیادہ مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور اس میں انہیں درد کی شکایت بھی ہوتی ہے، تناؤ زیادہ ہوتو ایسے لوگوں میں درد بھی بڑھ سکتا ہے اور ڈسک نکل کر نس پر دباؤ دیتی ہے، جس سے شیاٹکا یعنی عرق النساء ہوتا ہے، جس کی وجہ سے چلنے پھرنے میں دشواری ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کا حل یہ ہے کہ روزانہ واک کریں، واک کمر کو مضبوط بناتی ہے، دوسرا اپنے پوسچر (بیٹھنے کا انداز) کا دھیان رکھیں، بائیک چلا رہے ہیں یا رکشہ میں سفر کر رہے ہیں تو جھک کر نہ بیٹھیں، جھک کر بیٹھنے سے مزید تناؤ پڑتا ہے، وزن اٹھاتے ہوئے کمر پر زور نہ دیں، گھٹنے فولڈ کرکے وزن اٹھائیں۔

آغا خان اسپتال کے ڈاکٹر محمد واسع نے بتایا کہ پاکستان میں دماغی بیماریوں کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ایک یہ ٹراما ہے، ٹراما سے تین طرح کی بیماریاں ہوتی ہیں، ایک سر کی چوٹ کیونکہ جو لوگ ہیلمٹ نہیں پہنتے انہیں ہیڈ انجری کی وجہ سے ٹرامیٹک برین انجری ہوجاتی ہے، یہ لوگ حادثے کی وجہ سے یا تو مرجاتے ہیں یا زندگی بھر کیلئے معذور ہوجاتے ہیں، اس کے علاوہ آپ کو جتنے لوگ وہیل چیئر پر نظر آئیں گے، جنہیں ٹرامیٹک اسپائنل کارڈ انجری ہوگی، زیادہ تر وہ ہوں گے جن کی ٹراما کی وجہ سے اسپائنل کارڈ ڈیمیج ہوجاتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ٹراما کی وجہ سے اسپائن کی بیماریاں بھی بہت ہوتی ہیں، پاکستان میں آپ کہیں بھی چلے جائیں آپ کو بڑی تعداد میں لوگ اسپائن کی بیماری میں مبتلا ملیں گے، اس کی بڑی وجہ موٹر سائیکل کا استعمال ہے، شہر میں ٹرانسپورٹ کی اچھی سہولیات نہیں ہیں تو لوگ رکشہ یا موٹر سائیکل استعمال کرتے ہیں اور یہ گاڑیاں اُن سڑکوں پر چلتے ہیں جس کی حالت خستہ حال ہوتی ہے، جہاں جھٹکے لگتے ہیں۔

ڈاکٹر واسع نے کہا کہ ریڑھ کی ہڈی جسم کا بہت حساس عضو ہے، ان جھٹکوں کی وجہ سے ریڑھ کی ہڈی ڈیمیج ہونا شروع ہوجاتی ہے، اگر ہم 30 سال کی عمر کے بھی نوجوانوں کا ایم آر آئی کرتے ہیں تو اس میں ڈی جینیریٹو اسپائن کی بیماری آتی ہے، 30 سال کی عمر میں ان کی ریڑھ کی ہڈی ڈی جینیریٹ ہونا شروع ہوجاتی ہے، اس کی وجہ سے لوگوں کو اعصاب کی بیماریاں ہورہی ہیں، چلنا پھرنا مشکل ہورہا ہے، مسلسل لوگ تکلیف میں رہتے ہیں، اس عمر میں ایک صحتمند ریڑھ کی ہڈی ہونی چاہئے اور ڈی جینیریٹ اسپائن تو 50 سال کی عمر کے بعد ہونی چاہئے۔

ڈاکٹر محمد واسع نے کہا کہ لوگوں کو آگہی دینے کی ضرورت ہے کہ اس سے خود بچنے کی کوشش کریں، بائیک آہستہ چلائیں تاکہ جھٹکے نہ لگیں، کوشش کریں جتنا ممکن ہوسکے موٹر سائیکل کم چلائیں، بائیک چلاتے ہوئے ہیلمیٹ پہنیں، حفاظتی گیجیٹس کا استعمال کریں، پاکستان میں ٹراما کا شکار لوگوں کیلئے ری ہیبیلٹیشن کا کوئی مرکز نہیں، اسپائنل کارڈ انجری کا کوئی ری ہیب سینٹر نہیں۔

دماغی و اعصابی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر عبدالمالک نے بتایا کہ کراچی میں کوئی اس وقت 40، 50 لاکھ یا اس سے زیادہ موٹر سائیکلیں چل رہی ہوں گی، ان موٹر سائیکل سواروں کو ایک دو نہیں کئی مسائل کا سامنا ہے، موٹرسائیکل کے شاکس کتنے اچھے ہوتے ہیں، ان کی کنڈیشن بھی سب کو معلوم ہے، پھر دو بوندیں بارش سے حادثات کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خراب ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر مسلسل بائیک چلانے کی وجہ سے لوگ نوجوانی میں مہروں کے مسائل اور ریڑھ کی ہڈی کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں، اس کی وجہ سے نوجوان معذوری کی طرف بڑھ رہے ہیں، کیونکہ جوان ہوتے ہیں قوت مدافعت اچھا ہوتا ہے تو وہ برداشت کرجاتے ہیں لیکن جوں جوں عمر بڑھتی ہے یہ مسائل وقت کے ساتھ بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالمالک کا کہنا ہے کہ سروے کرلیں کراچی کی کتنی آبادی کو کمر، گردن اور ریڑھ کی ہڈی کا درد ہے، کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ تو موجود ہی نہیں، چنگچی کیا پبلک ٹرانسپورٹ ہے؟۔

جناح اسپتال شعبہ حادثات کی سربراہ ڈاکٹر صائمہ مشتاق کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس سڑکوں پر موجود گڑھوں کے نتیجے میں ہونیوالے حادثات کے بھی کیسز بڑی تعداد میں آتے ہیں، جن میں رکشہ اُلٹنے اور بائیک سے گرنے والے نوجوان بھی شامل ہیں، ان حادثات کے نتیجے میں انہیں شدید سر پر چوٹ بھی آتی ہے اور سر کی چوٹ جان لیوا بھی ہوتی ہے۔

سماء ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ رکشوں میں سفر کرنے والی خواتین میں بزرگ خواتین ریڑھ کی ہڈی اور کولہے کی ہڈی میں درد کی شکایات کے ساتھ آتی ہیں، ہمارے پاس ریڑھ اور کولہے کی ہڈی میں درد کے 10 فیصد کیسز وہ ہوں گے جو ٹوٹی اور گڑھوں والی سڑکوں پر سفر کرنے والے بائیک اور رکشہ سوار ہیں۔

جناح اسپتال شعبہ آرتھوپیڈک سرجری کے ڈاکٹر مصعب آفاق نے بتایا کہ پاکستان کم آمدنی والے افراد سفر کیلئے موٹر سائیکل اور رکشہ کا استعمال کرتے ہیں، ان بائیک اور رکشہ کی کنڈیشن اور شاکس اچھے نہیں ہوتے، دوسرا ٹوٹی سڑکیں شہریوں کیلئے دوہرا وبال بن رہی ہیں، اگر آپ کی بائیک کسی کھڈے میں لگتی ہے تو شاکس کا کام ہوتا ہے اس سارے دباؤ کو برداشت کرے لیکن جب شاکس اچھے نہ ہوں تو یہ جھٹکا ریڑھ کی ہڈی پر آتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہلکا جھٹکا ہوگا تو ٹشوز متاثر ہوں گے اور اگر یہ جھٹکا شدت سے لگے گا تو ریڑھ کی ہڈی کے مہرے سلپ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے آپ کو ریڑھ کی ہڈی اور مہروں میں درد ہوتا ہے جو بعض اوقات ٹانگ تک بھی محسوس ہوتا ہے، آپ بائیک پر درست انداز میں بیٹھتے ہیں، زیادہ جھکتے نہیں ہیں تو آپ کی کمر پر اس کا دباؤ کم ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس 20 سال سے 40 سال کی عمر کے افراد بیک پین کے ساتھ زیادہ آرہے ہیں یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں کوئی حادثہ پیش نہیں آیا لیکن غیر معیاری بائیکس اور شاکس کی وجہ سے انہیں یہ مسائل ہیں۔

BACK PAIN

DISC SLIP

Tabool ads will show in this div