طبی ماہرین نے کراچی میں وبائی امراض پھوٹنے کا خدشہ ظاہر کردیا
طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر صفائی ستھرائی کی صورتحال بہتر نہ ہوئی تو کراچی میں وبائی امراض پھوٹ سکتے ہیں، محکمہ صحت سندھ نے کے ایم سی کو ڈھائی سال سے ادویات کی فراہمی بند کر رکھی ہے جس کی وجہ سے شہر میں مکھیوں اور مچھروں کے خاتمے کیلئے اسپرے نہیں ہورہا ہے، شہر میں صفائی کی ابتر صورتحال، جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر اور بارشوں کے نتیجے میں گندگی مکھیوں اور مچھروں کی افزائش کا سبب ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بارشوں اور قربانی کا سیزن مکھیوں کی افزائش کیلئے انتہائی سازگار ہوتا ہے کیونکہ شہری عید پر قربانی کے بعد آلائشیں باہر پھینک دیتے ہیں اور بارش کے نتیجے میں اس گندگی پر نمی آجاتی ہے جو مکھیوں کے انڈے دینے کیلئے انتہائی موزوں ہے۔
وبائی امراض کے ماہر اور پبلک ہیلتھ ایکسپرٹ ڈاکٹر رانا جواد اصغر نے سماء ڈیجیٹل کو بتایا کہ اگر صفائی ستھرائی کی صورتحال کو بہتر بنایا جائے، کچرے کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگایا جائے، شہریوں کو صاف پانی فراہم کیا جائے تو اس کے نتیجے میں اسپتالوں پر متعدی امراض کے 80 فیصد دباؤ کو کم کیا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کراچی میں حایہ بارشوں کے نتیجے میں جگہ جگہ پانی جمع ہے اور اس دوران قربانی کے جانوروں کی آلائشیں بھی اس پانی میں شامل ہوگئیں، جس کے نتیجے میں شہر میں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر لگ گئے۔
ڈاکٹر رانا جواد اصغر نے کہا کہ مون سون کی بارشوں کے بعد مکھیوں کی بہتات ہوگی اور جگہ جگہ جمع ہونیوالا بارش کا پانی مچھروں کی افزائش کا سبب بنے گا، یہی مکھیاں گندگی اور غلاظت پر بیٹھ کر جراثیم کو ایک سے دوسری جگہ پھیلانے کا سبب بنیں گی، اس کے نتیجے میں ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ، ہیپاٹائٹس اے، ای، گیسٹرو، انٹرائٹس اور ڈائریا کے کیسز بڑھ جاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ شہریوں کو چاہئے کہ ان بیماریوں سے بچنے کیلئے اپنے گھر اور گلی، محلوں کو بھی صاف رکھیں، کیونکہ لوگ اپنے گھر تو صاف رکھتے ہیں لیکن گلی محلے صاف نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے مکھیاں باآسانی باہر سے جراثیم آپ کے گھروں تک لے جاتی ہیں۔
انہوں نے شہریوں کو مشورہ دیا کہ ان ایام میں گھروں کی بنی ہوئی اشیاء اور تازہ کھانے کھائیں، پانی اُبال کر پیئیں، ہاتھ دھونے کی عادت اپنائیں، باہر کی اشیاء خاص کر سلاد، رائتہ اور چٹنی کھانے سے گریز کریں، گھروں میں کھانے کی اشیاء کو ڈھانپ کر رکھیں، اگر ممکن ہو تو کھڑکیوں پر جالیاں لگوائیں تاکہ مچھروں اور مکھیوں کی آمد و رفت کو روکا جا سکے۔
اینٹامولوجسٹ اور ڈائریکٹر نیشنل ملیریا اینڈ ڈینگی کنٹرول پروگرام ڈاکٹر محمد مختار نے سماء ڈیجیٹل کو بتایا کہ بارشوں کے بعد فوراً دھوپ نہیں نکلتی ہے، یہ سیزن مکھیوں کی افزائش کیلئے انتہائی سازگار ہوتا ہے کیونکہ شہری عید پر قربانی کے بعد آلائشیں باہر پھینک دیتے ہیں اور برسات کے بعد گندگی پر نمی آجاتی ہے جو مکھیوں کے انڈے دینے کیلئے بہت موزوں ہے، مکھیاں خشک جگہ پر انڈے نہیں دیتیں بلکہ ایسی گندگی جس میں نمی شامل ہو وہاں انڈے دیتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب مکھی انڈے دیتی ہے تو ان اںڈوں میں سے 5 دن کے اندر بچے نکل آتے ہیں اور اُڑنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اب عید الاضحیٰ آئندہ 20، 22 سال تک اسی سیزن میں آئے گی لہٰذا ہمیں صفائی کا خاص خیال رکھنا ہوگا۔
ڈاکٹر مختار نے بتایا کہ یہی وجہ ہے کہ برسات کے بعد مکھیوں کی بہتات ہوجاتی ہے، یہی مکھیاں گھر کے اندر اور باہر بھنبھناتی نظر آتی ہیں، یہ گندگی پر بیٹھتی ہیں، پیتھوجن یا بیماریاں ان کی ٹانگوں سے لگ کر ایک سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں، اگر آپ کھانے کی اشیاء ڈھانپ کر نہیں رکھیں گے تو یہ مکھیاں ان پر بیٹھتی ہیں اور جراثیم یا بیماریاں اس کھانے میں منتقل کردیں گی، اسے ہم جراثیم کی میکینیکل ٹرانسمیشن کہتے ہیں، اس لئے کوشش کریں اس سیزن میں خاص طور پر کھانے کی چیزیں ڈھانپ کر رکھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہئے کہ ایسے اقدامات کرے کہ جانوروں کی آلائشیں رہائشی علاقوں میں نہ پڑی رہیں، انہیں فوری طور پر رہائشی علاقوں سے دور منتقل کیا جائے اور محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگایا جائے، اگر یہ آلائشیں پڑی رہیں گی اور گیلی ہوجائیں گی تو نمی کی وجہ سے ان میں مکھیوں کی افزائش ہوگی، شہریوں کو بھی چاہئے کہ وہ صفائی کا خاص خیال رکھیں، آلائشوں کو رہائشی آبادی سے دور پھینکیں۔ ماہرین صحت نے کہا کہ اس موسم میں صرف کھانے کی اشیاء ہی نہیں بلکہ کوڑا دان کو بھی ڈھانپ کر رکھیں۔
بچوں کی بیماریوں کی ماہر ڈاکٹر آفتاب احمد نے بتایا کہ قربانی کے بعد جگہ جگہ آلائشیں اور گندگی کی وجہ سے بچوں میں ڈائریا، گیسٹرو انٹرائٹس اور ہیپاٹائٹس اے اور ای کے کیسز بڑھ جاتے ہیں، ہر سال اسپتالوں میں بڑی تعداد میں کیسز رپورٹ ہوتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں کچرے کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کا کوئی بہتر نظام موجود نہیں ہے، صفائی ستھرائی کی ناقص صورتحال اور پھر بارش ان بیماریوں کو وبائی شکل دے دیتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان بارشوں میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ بارش کے پانی میں خون اور آلائشیں پڑی تھیں اور اس کے نتائج اب ہم چند دنوں میں دیکھیں گے، شہر سمیت صوبہ بھر میں گیسٹرو اور ٹائیفائیڈ کے کیسز بڑھ جائیں گے، اس سیزن میں اب مکھیوں اور مچھروں کی بہتات ہوجائے گی، مکھیاں گندگی پر بیٹھ کر جراثیم ایک سے دوسری جگہ منتقل کرتی ہیں، مسلسل گوشت کھانے سے بھی پیٹ کے مسائل جنم لیتے ہیں۔
ڈاکٹر آفتاب احمد نے کہا کہ شہریوں کو چاہئے کہ پانی اُبال کر پیئیں کیونکہ بارش اور سیوریج کا پانی مکس ہوکر پینے کے پانی میں شامل ہورہا ہے، بچوں کی صحت کا خاص خیال رکھیں، ہاتھ دھونے کی عادت اپنائیں۔
کے ایم سی حکام کے مطابق کراچی میں گزشتہ دو ڈھائی سال سے مچھر اور مکھی مار اسپرے نہیں ہورہا ہے۔ حکام نے سماء ڈیجیٹل کو بتایا کہ کے ایم سی میونسپل سروسز ڈپارٹمنٹ کے ماتحت میونسپل پبلک ہیلتھ کو محکمہ صحت دوائیں فراہم کرتا تھا اور کے ایم سی کا عملہ شہر بھر میں ان دوائیں کا چھڑکاؤ اور اسپرے کرتا تھا۔
حکام نے بتایا کہ گزشتہ ڈھائی سال سے محکمہ صحت نے دوائیں فراہم کرنا بند کردی ہیں اور متعدد بار محکمہ صحت کو اس بارے میں تحریری طور پر آگاہ کیا گیا ہے لیکن بارہا توجہ دلانے کے باوجود دوائیں فراہم نہیں کی جارہیں، جس کی وجہ سے شہر میں اسپرے نہیں ہورہا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اسپرے نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت ڈینگی اور ملیریا کے کیسز میں اضافہ ہوچکا ہے اور اب ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مون سون کی بارشوں کے بعد گندگی کی وجہ سے مکھیوں کی بہتات ہوجائے گی، جس کے نتیجے میں وبائی امراض پھوٹنے کا خدشہ ہے۔