ثانیہ مرزااحساس جُرم کا شکار کیوں ہیں؟
مائیں چاہیں کسی بھی خطے یا ثقافت سے تعلق رکھتی ہوں لیکن ان سب میں ایک چیز مشترک ہے، بیشتراپنے بچوں سے متعلق کسی بھی منفی چیز یاان پراچھااثرنہ ڈالنے والے کسی معاملے کیلئے خود کو ہی ذمہ دارٹھہراتی ہیں۔
مائیں بچوں کے تمام کاموں کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ ساتھ رہنے کی ضرورت محسوس کرتی ہیں اور اگربوجوہ ایسا نہ ہوپائے تو ان کا ‘مام گلٹ’ انہیں چین نہیں لینے دیتا۔ اپنی پروفیشنل مصروفیات کی وجہ سے بیرون ملک موجود بھارتی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزابھی کچھ ایسے ہی احساسات کا شکارہیں۔
ثانیہ اپنے بیٹےاذہان مرزاملک کی نرسری گریجویشن تقریب میں شرکت نہیں کرسکیں جس کا انہیں بہت افسوس ہے لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی بتانا چاہتی ہیں کہ انہیں کتنا بُرامحسوس ہوا لیکن وہ تمام ماؤں کو بتانا چاہتی ہیں کہ ایسے تمام کاموں کے لیے خود کومعاف کرنا کتنا ضروری ہے۔
ثانیہ نےانسٹااسٹوریزمیں لکھا، “میں انگلینڈ میں میچ کھیل رہی ہوں اور میرابچہ آج گریجویٹ ہوگیاہے، میں اس تقریب کا حصہ نہیں تھی اور یہ بہت خوفناک احساس تھا لیکن بدقسمتی سے ہم ایک ہی وقت میں دوجگہوں پرموجود نہیں ہوسکتے۔ ماں کا احساس جرم حقیقی ہے جو کبھی نہیں رُکتا”۔
ساتھ ہی ثانیہ نے واضح کیا کہ لیکن اس بات کو پہچاننا اوراپنے آپ کو معاف کرنا ضروری ہے کیونکہ ہم کچھ بھی کریں ایک ماں کو کبھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ وہ اپنے بچے کے لیے کافی کچھ کررہی ہے۔اپنی عدم موجودگی میں فیملی کی جانب سے اذہان کا خیال رکھنے کے تناظرمیں ثانیہ نے انہیں سراہتے ہوئے مزیدلکھا کہ ، “میں بہت خوش قسمت ہوں کہ ایک فیملی اور سپورٹ سسٹم ہے جو مجھے اپنے خوابوں کا تعاقب کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ آئیے دوسروں کے اور اپنے ساتھ مہربان رویہ رکھیں”۔
ثانیہ کی عدم موجودگی میں اذہان کے والد اورپاکستان کرکٹ ٹیم کےسابق کپتان شعیب ملک ‘پرفیکٹ بابا’ کا کرداربخوبی نبھا رہے ہیں۔
شعیب نے بیٹے کی گریجویشن کے موقع پردلکش تصویرکرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے لیے فخرکالمحہ ہے۔
اس سے قبل بھارت کی ٹاپ ٹینس پلیئربتاچکی ہیں کہ کسی کام کو شروع کرنے کے انتخاب میں انہیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ثانیہ کا مانناہے کہ زندگی میں بعض اوقات ہمیں کئی چیزوں میں سے کچھ چُننا پڑتا ہے، اس سفرمیں ہم کچھ کھوتے ہیں تو کچھ پاتے بھی ہیں، نو، دس سال کی عمرمیں ٹینس کا آغازکیا تو والدین کو ساتھ سفربھی کرنا پڑتا تھا لیکن چونکہ ان کی بہن ان سے 8 سال چھوٹی تھیں تو والدہ کو اس کی دیکھ بھال کیلئے واپس جانا پڑتاتھا۔
ثانیہ کے مطابق انہوں نے شادی کے بعد بھی کم وبیش اسی صورتحال کاسامنا کیا کیونکہ وہ اورشعیب کھیل اور 2 علیحدہ ممالک سے تعلق رکھنے کے باعث کئی کئی ماہ ایک دوسرے سے مل نہیں پاتے، جبکہ انہیں بعض اوقات ٹینس ٹورنامنٹس کیلئے اذہان کو بھی گھرپرچھوڑ کرجانا پڑتا ہے جوکہ بالکل بھی آسان نہیں ہے۔