موسمیاتی تبدیلی نے وادی غذر کےکئی مقامات بدل ڈالے
شمالی علاقہ جات میں تیزی سے رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث کئی مقامات کے نقشے تبدیل ہورہے ہیں۔ گلگت بلتستان کی وادی غذر کا علاقہ بڈھ سوات بھی ایسی ہی تبدیلیوں کے نشانے پر رہاجہاں عطا آباد جیسی برفانی جھیل وجود میں آگئی۔
گلگت بلتستان کی وادی غذر کا علاقہ بڈھ سوات موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہوا ہے۔ یہاں برفانی جھیل نے 3 گاؤں تباہ کردیے جب کہ متعدد دیہات کا وجود تاحال خطرے میں ہے۔
بڈھ سوات کی وادی کے اطراف کے پہاڑوں میں 200 سے زائد چھوٹے بڑے گلشئیرزچھپے ہوئے ہیں۔ ان علاقوں کو سیلابی پانیوں میں ڈبونے والا بھی ایک گلیشئیر ہے۔
یہ علاقہ گلگت سے تقریبا120 کلومیٹرکے فاصلے پر ہےاوراس علاقے میں بدلتے موسموں کے اثرات دکھانے کے لئے کچے پکے راستوں سے گزر کر پہنچنا پڑتا ہے۔ سرحدی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں پرعام شہریوں کا داخلہ بھی منع ہے۔
اس علاقے میں سرسبز درختوں اور مکانات کو گلیشئیر کے گول پتھروں سے بدلنے کا سلسلہ 2015 میں شروع ہوا۔ بڈھ سوات کے 8.5 کلومیٹر طویل گلیشئیر نے 2018 میں نیچے گاؤں کا نقشہ ہی بدل ڈالا اورہنستا بستا گاؤں ایک بنجر میں تبدیل ہوگیا۔
مقامی افراد نے بتایا کہ شروع میں یہ جھیل چھوٹی تھی لیکن گزشتہ سال بڈھ سوات گلشئیر میں دو مرتبہ برفانی جھیلیں پھٹیں جس سے کرومبر جھیل اور برتھ گلشئیر کا پانی اس بڈھ سوات گلشئیر کے سیلابی پانی نے روک دیا اور یوں بڈھ سوات جھیل اعشاریہ سات سو سینتیس اسکوائر کلومیٹر طویل ہوگئی۔ یہ شسپرجھیل سے دو گنا زیادہ بڑی ہے۔
اس گلیشیر کے سیلاب سے 3 گاؤں متاثر ہوئے جبکہ ہزاروں ایکڑ زرعی زمین تباہ ہوگئی۔
اس وادی میں سب سے بڑا گلیشیئر کرومبر موجودہے جس کی لمبائی19کلومیٹر ہے۔دوسرے نمبر پربرتھ گلیشئیر آتا ہے جو ساڑھے 9 کلومیٹر طویل ہے۔
ان دونوں گلیشئیرز سے نالوں کی صورت میں آنے والا پانی مسلسل جھیل کے حجم میں اضافہ کرتا جا رہا ہے اور یوں گاہکوچ اور گلگت تک کی بستیاں مسلسل خطرے کی زد میں ہیں۔ اس علاقے کے متاثرین کے لئے حکومت کی جانب سے خاطر خواہ معاوضہ فراہم نہیں کیا گیا۔ سال 2018 کے سیلاب میں ان کو ساٹھ ساٹھ ہزار روپے دئیے گئے تھے۔