پرویز مشرف کی وطن واپسی سے متعلق سینیٹرز کی رائے
سابق صدر پاکستان جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی واپسی سے متعلق سینیٹ میں بحث ہوئی جس میں اراکین کی اکثریت نے ان کے واپس آنے پر کسی اعتراض سے گریز کیا۔
سينيٹ کےاجلاس میں سابق صدرپرويز مشرف کى بيمارى اور دبئی سے وطن واپسى کے معاملے پر بحث ہوئی۔
سينيٹ میں اپوزیشن لیڈريوسف رضا گيلانى نے اظہار خيال کرتےہوئے کہا کہ پرویز مشرف سے متعلق ہم فيصلے کرنے والے نہیں ہيں کیوں کہ جب پرویز مشرف باہر گئے تھے تو کسى نے نہیں روک سکا۔ انھوں نے بتایا کہ جب پرویز مشرف صدر تھے تو میں جيل میں تھا تاہم بعد میں ہاؤس کے فلور پر آکر کہہ ديا تھا کہ میں نے پرويز مشرف کو معاف کردیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ بےشک پرویز مشرف پاکستان واپس آئیں کیوں کہ یہ ان کا گھر ہے تاہم سب کے ساتھ برابر کا برتاؤ ہونا چاہئے۔
سینیٹرمولانا عبدالغفورحیدری کا کہنا تھا کہ پاکستان سےعلاج کے لیے سابق وزیراعظم نوازشریف بھی بیرون ملک گئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس وقت پرویز مشرف کی حالت بالکل ٹھیک نہیں ہے اور اگرانہیں ان حالات میں پاکستان لایا جاتا ہے تو ہمیں مشکل پیدا نہیں کرنی چاہیے۔
مولانا عبدالغفورحیدری کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایم آر ڈی کے معاملے میں پرویزمشرف کے دور میں ایک سال قید بامشقت بھی کاٹ چکا ہوں۔
سينيٹر اعجاز چوہدری نے اس حوالے سے کہا کہ میں پرويز مشرف کی وطن واپس کا مخالف نہیں ہوں تاہم پاکستان کوئى چراہ گاہ نہیں ہے کہ جب دل کرے آئيں اور جب دل کرے يہاں سے چلے جائيں۔
انھوں نے کہا کہ قانون کواپنا راستہ اختيار کرنا چاہيے اورہر شخص کے لئے ايک جيسا قانون ہونا چاہيے، یہ ملک اس وقت ترقى کرے گا جب سب کے لئے ايک جيسا قانون ہوگا کیوں کہ لاقانونیت پاکستان کو لے کرآگے نہیں بڑھ سکتى۔
تحریک انصاف کے سينيٹرفيصل جاويد نے کہا کہ طاقتور کے لئے الگ قانون ہے اور کمزور کے لئے الگ قانون بنایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ترجمان پاک فوج نے گذشتہ روز ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویزمشرف کی فیملی ان کو پاکستان واپس لانا چاہتی ہے تو پاک فوج انھیں معاونت فراہم کرے گی،ادارے کاموقف ہے کہ مشرف صاحب کو پاکستان واپس آجانا چاہئے۔
اس سے علاوہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے بھی کہا ہے کہ پرویز مشرف سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں،وہ اگر واپس آنا چاہیں تو آسکتے ہیں۔