عدالت کی حکومت کوای سی ایل ترامیم قانونی دائرہ میں لانےکیلئےایک ہفتےکی مہلت
سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) کے قوانین میں حالیہ تبدیلیوں کو ایک ہفتے کے اندر قانون کے دائرے میں لانے کی ہدایت کرتے ہوئے خبردار کیا کہ ہدایت پر عمل نہ کیے جانے کی صورت میں حکم جاری کیا جائے گا۔
وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے 22 اپریل کو کہا تھا کہ حکومت نے ای سی ایل قوانین میں اہم تبدیلیاں متعارف کروائی ہیں تاکہ برسوں اور دہائی سے زائد عرصے تک لوگوں کو نام ای سی ایل میں رکھنے کا رواج کو ختم کیا جا سکے۔
بعد ازاں چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے انصاف عمل کو با اختیار لوگوں کے ذریعے کمزور کیے جانے کے خدشات کے پیش نظر اس پر ازخود نوٹس لیا تھا۔
آج بروز جمعہ 3 جون کو از خود نوٹس پر سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ہدایت دی کہ حکومت ترمیم کو قانون کے دائرے میں لانے کے لیے مناسب اقدامات کرے، ہم فی الوقت انتظامی اختیارات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف سے ای سی ایل سے نام نکالنے کے طریقہ کار سے متعلق استفسار کیا کہ ای سی ایل میں نام ڈالنے کے لئے کون کہتا ہے، کبھی کسی سے پوچھا ہے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہمارے پاس خط آتا ہے کہ متعلقہ شخص سے تفتیش جاری ہے اس لئے نام ای سی میں ڈال دیں، بیرون ملک سفر اور آزادنہ نقل وحرکت ہر شہری کا آئینی حق ہے، کسی فرد کے خلاف نیب میں تحقیقات یا کسی ایجنسی کے تحقیقات کے سبب نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا جاسکتا۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت کسی شخص کا نام ای سی ایل میں ڈالنے سے پہلے نقل و حرکت کی آزادی اور اس پر لگائے گئے الزامات کا جائزہ لیتی ہے، حکومت نے تمام قانونی تقاضے پورے کرکے ای سی ایل رولز میں ترمیم کی، وفاقی کابینہ نے ای سی ایل رولز ترمیم میں لکھا کہ ان کا اطلاق ماضی سے ہوگا، ای سی ایل رولز میں ترمیم وفاقی حکومت کی صوابدید ہے۔
اٹارنی جنرل کا یہ بھی کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ میں شامل افراد کے نام ای سی ایل سے نکالنے کی وجہ آزادنہ حکومتی امور کی انجام دہی ہے، کسی قانون میں نہیں لکھا کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کے سبب نیب سے مشاورت ضروری ہے۔
چیف جسٹس نے کہا ہمیں معلوم ہے آپ نے ایک ایسے فرد کو بھی چھوڑ دیا ہے جسے ہم نے قید میں رکھنے کا حکم دیا تھا، جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس کے خلاف ریفرنس 2018 کا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا آرڈر 2021 کا تھا، اٹرانی جنرل نے جواب دیا کہ آپ کے حکم پر عملدرآمد کیا گیا، اس کی رہائی ریفرنس کے فیصلے کے نتیجے میں ہوئی۔
چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ اگر نیب یا کوئی تحقیقاتی ادارہ کسی کے خلاف تحقیقات کر رہا ہو تو آپ کو اس ادارے سے مشاورت کرکے ایسی ایل سے نام نکالنا چاہیے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ چیئرمین نیب کی ہدایت پر نام ای سی ایل میں شامل کئے جاتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب ہے نیب سوچ سمجھ کر ہی نام ای سی ایل میں ڈالنے کا کہتا ہے، کرپشن سنگین جرم ہے اور نیب کا ہر کیس ہی کرپشن کا ہوتا ہے، نیب ہر ملزم کا نام ای سی ایل میں شامل نہیں کرواتا، نیب کے مطابق اربوں روپے کرپشن کے ملزمان کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے۔
اٹارنی جنرل نے جواباً کہا کہ نیب کو ضرورت ہو تو نام دوبارہ شامل کرنے کے لیے رجوع کر سکتا ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کو نام نکالنے کا پتا ہوگا تو ہی رجوع کر سکے گا، ایسے ملزم کا نام بھی ای سی ایل سے نکالا گیا جو سپریم کورٹ نے شامل کروایا تھا۔
سماعت کے دوران جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بہتر ہوتا کہ ہر کیس کا الگ جائزہ لے کر نام نکالے جاتے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ایگزیکٹو کے فنکشنز میں مداخلت نہیں کررہے، ایک وزیر فنانشل معاملات پر کام کررہا ہے، ہم آپ کو کچھ وقت دیتے ، آپ قانون کے مطابق عمل کریں، ہم آپ کو 2 ہفتوں کا وقت دیتے ہیں، ہم چاہتے ہیں قانون پر عملدرآمد کر کے سب سے یکساں انصاف ہو۔ رشتہ داروں یا دوستوں کو فائدہ ہورہا تو کیا ایسی ترمیم ہونی چاہیے؟ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ای سی ایل رولز میں ترمیم کا اطلاق ماضی سے کیوں کیا گیا؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ماضی سے ترمیم کے اطلاق کا مقصد مخصوص افراد کیلئے نہیں تھا، اس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ترمیم کرنے والوں کے اگر رشتہ داروں یا دوستوں کو فائدہ ہورہا تو کیا ایسی ترمیم ہونی چاہیے؟ جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ آپ نے لکھا ہے کہ ملک سے باہر جانا ایک بنیادی حق ہے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہم نے کہا ہے کہ آزادانہ نقل و حرکت ایک شہری کا بنیادی حق ہے۔
ایک موقع پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ توقع ہے جو کہنا چاہ رہا ہوں آپ سمجھ گئے ہوں گے، نیب بھی یقینی بنائے کہ اس کا ادارہ کسی کے خلاف انتقام کیلئے استعمال نہ ہو۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ای سی ایل سے نام نکلنے کے بعد 30 لوگ بیرون ملک گئے، 23 لوگ واپس آگئے، 7 لوگ واپس نہیں آئے، شرجیل انعام میمن بھی باہر گئے اور واپس نہیں آئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے لیے شرمندگی ہوتی ہے جب پراسیکیوٹر کہتا ہے ریکارڈ نہیں ملا، نیب کے مقدمات میں ایسا ماضی میں ہو چکا ہے، جن مقدمات میں شواہد نہیں وہ عدالتوں میں نہیں جانے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری تشویش ہے کہ آزادانہ تحقیقات ہوں اور شفاف ٹرائل ہو، یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ریکارڈ گم ہو جائے یا گواہوں کو خاموش کرا دیا جائے۔ بعد ازاں کیس کی سماعت 14 جون تک ملتوی کردی گئی۔