زندہ بھاگ

human 1 زندہ بھاگ کے نام سے بننی والی فلم کا موضوع انسانی اسمگلنگ ہے ۔ اس بھیانک کاروبار پر بات سے پہلے ایک لطیفہ جو اس موضوع سے متعلق ہے ۔ کہتے ہیں چاند پر جب نیل آرم اسٹرانگ نے پہلا قدم رکھا تو وہاں کچھ پاکستانی کسمپرسی کے حالات میں پڑے تھے ، گورے نے پوچھا ، ینگ مین تم یہاں کیسے ؟ ۔ پاکستانیوں نے جواب دیا ، پتہ نہیں جی ، ہمیں تو یہاں ایجنٹ چھوڑ گیا ہے ۔ حال ہی میں  سماء ٹی وی نے ایک ایسا اسکینڈل بے نقاب کیا جس میں پاکستان ہاکی فیڈریشن کے ساتھ مل کر کچھ لوگ کلب لیول کے ہاکی پلیئرز کے آڑ میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث تھے ۔ لوگوں سے خطیر رقم لے کر انہیں امریکہ لے جانے اور وہاں جاکر سہانے مستقبل کے خواب دکھائے جارہے تھے ۔ اس اسکینڈل کے بے نقاب ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ انسانی اسمگلنگ کا نیٹ ورک پاکستان میں کس حد تک جاچکا ہے ۔ پاکستان میں جوں جوں بیروزگاری اور لاقانونیت بڑھ رہی ہے لوگوں میں بیرون ملک جاکر اپنا اوراپنے خاندان کا مستقبل بہتر بنانے کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے ۔ دہشتگردی نے ترقی یافتہ ممالک میں پاکستانیوں کے قانونی داخلے ، روزگار اور شہریت کےلیے کافی مشکلات پیدا کردی ہیں اور یہ صورتحال انسانی اسمگلروں کےلیے آئیڈیل ہے ۔ غیرقانونی طریقے سے سرحد پار کرنے کی کوشش میں کئی افراد کی ہلاکتوں کے باوجود یہ دھندا جاری ہے ۔ human 2 پاکستان سے انسانی اسمگلنگ کی اگر بات کی جائے تو ایران کے ساتھ پاکستان کی سرحد تقریباً 900 کلومیٹر طویل ہے ۔ انسانی اسمگلروں کےلیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا علاقہ یہی ہے ۔ایجنٹ لوگوں کو بلوچستان سے ایران پھر ترکی اور پھر وہاں سے یونان پہنچاتے ہیں۔ ان تمام ممالک میں انسانی اسمگلروں کا ایک نیٹ ورک موجود ہے جو غیرقانونی طور پر جانے والوں کو خفیہ طریقے سے مطلوبہ مقام تک پہنچاتا ہے ۔ اس کے علاوہ بلوچستان کی سرحد پر ایران میں مند بیلو کا علاقہ انسانی اسمگلروں کے زیر استعمال ہے ۔ یہاں سے یہ کشتیوں میں مسقط جاتے ہیں اور پھر وہاں سے انہیں مشرق وسطیٰ کی ریاستوں میں پہنچایا جاتا ہے ۔ اس دوران کئی افراد بھوک ، پیاس ، سردی اور بارڈر فورس کی فائرنگ کا نشانہ بن کر ہلاک ہوتے ہیں تاہم کچھ لوگ منزلوں تک پہنچنے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں ۔ منزل پر پہنچنے کے بعد بھی مشکلات کے پہاڑ ان کے منتظر ہوتے ہیں ۔ غیر انسانی قسم کی رہائش ، روزانہ بیس ، بیس گھنٹے کام اور ناقص خوراک جیسی کئی صعوبتیں انہیں برداشت کرنا پڑتی ہیں اور کئی سال کی مشقت کے بعد ان لوگوں کو قانونی پناہ گزین تسلیم کیا جاتا ہے۔ human 3 ایران سے سالانہ تقریباً 25 ہزار جب کہ عمان سے 10 ہزار کے قریب پاکستانیوں کو گرفتاری کے بعد ملک بدر کرکے پاکستانی حکام کے حوالے کیا جاتا ہے ۔ سرکاری طور پر انسانی اسمگلنگ کا شکار ہونے والے افراد کی سالانہ مجموعی تعداد کے بارے میں کوئی اعدادوشمار دستیاب نہیں ۔ ایف آئی اے کے ریکارڈ کے مطابق بیشتر انتہائی مطلوب انسانی اسمگلروں کا تعلق گجرات اور گوجرانوالہ سے ہے ۔ کچھ انسانی اسمگلر سیالکوٹ، راولپنڈی ، منڈی بہاﺅ الدین اور آزاد جموں وکشمیر میں بھی کام کررہے ہیں۔ شکار ہونے والے افراد کی سالانہ مجموعی تعداد کے بارے میں کوئی اعدادوشمار دستیاب نہیں ۔ ایف آئی اے کے ریکارڈ کے مطابق بیشتر انتہائی مطلوب انسانی اسمگلروں کا تعلق گجرات اور گوجرانوالہ سے ہے ۔ کچھ انسانی اسمگلر سیالکوٹ، راولپنڈی ، منڈی بہاﺅ الدین اور آزاد جموں وکشمیر میں بھی کام کررہے ہیں۔ human 4 پاکستان سے افغانستان کے باشندوں کو بھی مغربی اور خلیجی ممالک کی طرف اسمگل کرنے کے لیے کام جاری ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان 2400 کلومیٹر طویل سرحد پر صرف چمن اور طورخم کے مقام پر دو امیگریشن پوسٹیں ہیں اور غیرقانونی آمد ورفت بہت آسان ہے۔ امریکی کانگریس میں ہونے والی ایک حالیہ بحث کے دوران بتایا گیا کہ صرف امریکا میں سالانہ پانچ لاکھ لوگ غیر قانونی طریقے سے داخل ہوتے ہیں ۔  یو ایس کانگریس کی ریسرچ سروس کا اندازہ ہے کہ مختلف ممالک میں ہر سال پندرہ سے بیس لاکھ افراد ناجائز اور غیر قانونی طریقے سے سرحدیں پار کرتے ہیں ۔ یورپی یونین میں انسانی اسمگلنگ کے سب سے زیادہ متاثرین کا تعلق رومانیہ ، بلغاریہ اور ہنگری سے ہوتا ہے ۔ human 5 پاکستانی نوجوانوں کو انسانی اسمگلروں سے بچانے اور ان کی زندگیوں کے تحفظ کےلیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تو متحرک ہونے کی ضرورت ہے ہی ، ساتھ ہی ملک کے اندر روزگار کے مواقع پیدا کرکےبھی اس مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ بیرون ملک جانے کے خواہشمند افراد  کےلیے وفاقی وزارت برائے سمندر پار پاکستانیز اور پاکستان کی وزارت خارجہ کو ان ممالک کے ساتھ زیادہ سے زیادہ معاہدے کرنے چاہیئں جہاں ہیومن ریسورس درکار ہے  مثال کے طور پر 2022 ء کے فٹبال ورلڈکپ کے میزبان قطر کو اپنا انفراسٹکچر بہتر بنانے کےلیے بڑی تعداد میں ہنرمندوں کی ضرورت ہے ، اسی طرح جنوبی کوریا میں بھی پاکستانی افرادی قوت کی ڈیمانڈ موجود ہے ۔ حکومت پاکستان نوجوانوں کو بیرون ملک بھجوانے کے عمل میں میرٹ کی بالادستی یقینی بنادے اور یہ مواقع بڑھا دے تو شائد انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں کئی گھرانے اجڑنے سے بچ سکتے ہیں۔ سماء

SAMAA Blog

illegal immigrants

Deportees

Eastern Europe

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div