آف شور کمائی کی رسوائی

1

کاروبار میں سب جائز ہونے کی منطق نے جرائم اور کاروبار میں کافی مماثلت پیدا کردی ہے، اس دنیا میں قدم رکھنے والا کوئی شخص پہلے اکیلا وارداتیں کرتا ہے، پھر اسے خیال آتا ہے کہ کیوں نہ ساتھ اور افراد بھی ملا لئے جائیں تاکہ واردات میں آسانی ہو، اس طرح وہ ایک گینگ بنتا ہے جو پہلے پہل چھوٹی موٹی چوریوں سے کام چلاتا ہے، پھر پیسے آتے ہیں تو وسائل کی مدد سے بڑے ڈاکے ڈالنا شروع کردیتا ہے، اس گینگ کے رنگ میں بھنگ اس وقت پڑتا ہے جب قانون نافذ کرنیوالے ادارے ان کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہیں اور کبھی کبھار پکڑ بھی ہوجاتی ہے، یہ مشکل وقت گزارنے کے بعد گینگ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ قانون کو خاموش کرادیا جائے تو ''کاروبار'' خوب پھلے پھولے گا اور پھر کچھ حصہ قانون کے رکھوالوں کی جھولیوں میں جانا شروع ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ کافی خوش کن نکلتا ہے۔

1a

اس کرشمہ سازی سے جب پیسے کی فراوانی ہوتی ہے، لوگ ڈرتے ہیں، سرکاری ادارے مال پانی کھانے کے بعد سرپرست بن جاتے ہیں تو گینگ کے سرغنہ کے دل میں الیکشن لڑنے کا خیال آتا ہے، اس طرح اس گینگ کا سرغنہ اسمبلی میں پہنچ جاتا ہے، کبھی وزیر تو کبھی مشیر اور بالآخر اعلیٰ ترین عہدہ قدموں میں آگرتا ہے، اب اللہ دے اور بندہ لے، سارے کام ہی آسان ہوجاتے ہیں، بنگلے، کاریں، کوٹھیاں اور فیکٹریاں، مگر کچھ ''شرپسندوں'' کو یہ ترقی ہضم نہیں ہوتی، وہ خواہ مخواہ کیڑے نکالتے ہیں اور بلاوجہ تنقید کرتے ہیں، کبھی ماضی کے طعنے دیتے ہیں، کبھی دیانتداری کا سبق پڑھاتے ہیں، اس پریشانی کا حل بتانے والے بھی اسی دنیا میں موجود ہوتے ہیں جو پاناما کی ایک لاء فرم کا پتہ بتاکر سارا مسئلہ ہی حل کردیتے ہیں، اس کہانی کی جزئیات میں تھوڑا بہت فرق ہوسکتا ہے کہ ہمارے ہاں سیڑھی کا یہ سفر کم و بیش ایسے ہی طے ہوا ہے۔

1b

اب آتے ہیں پاناما لیکس کی طرف، ہمارے محترم وزیراعظم نواز شریف کے نزدیک تو شائد آئس لینڈ کے مستعفی وزیرِاعظم انتہائی احمق ہیں، انہیں پہلے کم از کم ایک کمیشن یا کمیٹی ضرور بنانی چاہئے تھی، اگر وہ پاکستان کے سیاسی شیروں سے مشورہ کرتے تو انہیں بتایا جاتا ہے کہ اس معاملے میں بنائے جانیوالے کمیشن کو کم ازکم 2، 3 سال کام کرنا چاہئے، اتنی جلدی بھی کیا ہے۔ بات بات پر اخلاقیات کے اصولوں پر چلنے والے ''کافروں'' کو بتایا جاتا کہ اگر آپ کے ماتحت پولیس ماڈل ٹاؤن نامی کسی علاقے میں 100 افراد کو بلاوجہ گولی بھی مار دے تو گھبرا کر مستعفی ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ ڈٹ جانے کی ضرورت ہے، اگر مخالفین بہت تنگ کریں تو کمیشن بنادیں، رپورٹ آپ کیخلاف آئے تو اسے دبادیں، ایک اور کمیشن بنادیں اور اپنے حق میں رپورٹ لے کر ڈھنڈورا پیٹتے پھریں۔

اخلاقی اصولوں کی بات کرنیوالی قوموں کو یہ بھی بتایا جاسکتا ہے کہ مفادات کے تصادم (کونفلیکٹ آف انٹرسٹ)  نامی کسی جانور سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں، حکومت آپ کے پاس ہے تو ڈٹ کر کاروبار کریں، کاروباری حریفوں کا ناطقہ بند کردیں، انہیں اپنے کاروبار سے دستبردار ہونے پر مجبور کرکے دیدہ دلیری سے اجارہ داری بنالیں، شریفانہ روایات میں کاروباری ضرورت کے مطابق ایک دن کیلئے ملکی قوانین تبدیل بھی کئے جاسکتے ہیں، اپنا کام ہوجائے تو قوانین کو پھر سے پرانی ڈگر پر لایا جاسکتا ہے، قومی خزانے کو تھوڑا سا نقصان ہو بھی جائے تو کیا فرق پڑتا ہے، آخر یہ قوم کے نمائندے ہیں اور اس خزانے پر ان کا حق  ہے، یہ باتیں آئس لینڈ جیسے ملکوں میں بسنے والے ان ''کافروں'' کو سمجھ آگئیں تو بہت ترقی کریں گے۔ اسٹیل، شوگر، دودھ، چکن اور ریئل اسٹیٹ کے شعبوں میں اتنا مال کمائیں گے کہ آئندہ کئی نسلیں سنور جائیں گی۔

1c

ہمارے شیروں کے دلوں میں یہ بات بھی آتی ہوگی کہ پاکستان کی اپوزیشن بھی بڑی احسان فراموش ہے، ابھی کل ہی کی بات ہے کہ وزیراعظم نے بنی گالہ میں سرکاری پارک پر ناجائز قبضہ ختم کئے جانے کا حکم بقلم خود صادر فرمایا، پھر بھی عمران خان مسلسل ان کیخلاف مورچہ زن ہیں، پشاور کے شوکت خانم اسپتال کیلئے گیس اور بجلی کی فراہمی میں تمام رکاوٹیں دور کرادیں، اگرچہ رکاوٹٰیں خود پیدا کیں مگر پھر بھی یہ نیکی کیا کم ہے کہ انہوں نے اپنے رویے پر نظرثانی کرلی۔

ادھر ڈاکٹر عاصم کو بچانے کی بھی ہرممکن کوشش کی گئی، انہیں جیل سے اسپتال پہنچایا گیا، سہولتیں دی گئیں، ایان علی کیخلاف ایسی تحقیقات ہرگز شروع نہیں کیں جن سے ''مرد حُر'' کو کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو،  مگر پھر بھی اپوزیشن اتنی پتھر دل ہے کہ مسلسل تنقید کئے جارہی ہے۔

حسنِ ظن سے کام لیا جائے تو کئی اور ممکنات بھی ہوسکتے ہیں، ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ موساک فونیسکا  کی معلومات دنیا تک پہنچانے والوں کو شریف خاندان کی بدنامی پر شرمندگی کا احساس ہوجائے، حسین نواز شریف جیسے نیک شُعار اور فرمانبردار نوجوان کے در پر آکر وہ معافی مانگ لیں، چیخ چیخ کر دنیا سے کہیں کہ شریفوں کی شرافت پر انگلی مت اٹھائیے، آف شور کمپنیوں میں جو پیسہ آیا وہ 100 فیصد حق حلال کی کمائی تھی، اس رقم سے جو منافع ہوا وہ نا صرف پاکستان بلکہ دنیائے اسلام کے غُربا و مساکین پر خرچ ہوا، کئی اسکول بنے اور کئی اسپتال، معزز رہنماؤں کو بدنام مت کریں وہ تو دن رات عوام کا بھلا سوچتے ہیں۔

1e

ہونے کو تو بہت کچھ ہوسکتا ہے اور پاکستان میں ہوا بھی ہے، کئی ناممکنات گناہ گار آنکھوں نے خود دیکھی ہیں، بھلا یہ کوئی سوچ سکتا تھا کہ جنرل ضیاء الحق کی قبر پر ان کا مشن پورا کرنے کے دعویدار ایک دن اہل پاکستان کو جمہوریت کا سبق پڑھائیں گے، پرویز مشرف کو کابینہ سمیت قانون کے کٹہرے میں لانے کے خواہشمند ان کی کابینہ کو اپنی کابینہ بنالیں گے، آصف زرداری کو بھاٹی گیٹ پر پھانسی دینے کے اعلان کے چند ماہ بعد ان کے ہی اعزاز میں درجنوں ڈشز سجا کر چشم براہ ہوں گے، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس ملک میں کیا نہیں ہوسکتا، اس لئے اُمید کی جاسکتی ہے کہ پاناما لیکس کی کہانی کا انجام بھی کچھ ایسا ہی ہوگا جو اس سے پہلے ٹی وی اسکرینوں پر دکھائی گئی دیگر سنسنی خیز کہانیوں کا ہوا۔ اُمید رکھیے اور دیکھتے رہیے، کہانی آج کل اپنے کلائمیکس پر ہے، کچھ دنوں کے بعد یہ کلائمیکس سے نیچے آئے گی اور آخر کار اپنی موت آپ مرجائے گی۔

PTI

SHARIF FAMILY

MoneyLaundering

Panama leaks

panama papers

OffshoreCompanies

OffShorAccount

Tabool ads will show in this div