
حکومت پنجاب صحت عامہ پر سالانہ ایک سو بتیس ارب روپے سے زائد رقم خرچ کرنے کی دعویدار ہے لیکن یہ رقم کہاں جاتی ہے،کیسے خرچ ہوتی ہے اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ سرکاری اسپتالوں اورڈسپینسریوں میں جائیں تو وہاں مسیحا نہیں ملتے ہیں، وہ مل بھی جائے تو ادویات دستیاب نہیں۔
کئی اسپتالوں کے وارڈز اور آپریشن تھیٹرز تو دور کی بات ایمرجنسی تک میں سردرد تک کی گولیاں ،ٹیکے اور دیگر جان بچانے والی ادویات دستیاب نہیں ہوتيں، مشینری ہے تو آپریٹرز نہیں،ایکسرے مشینیں ہیں تو فلمیں نہیں، لیبارٹریوں اوربلڈ بینکس کی حالت بھي انتہائي ابتر ہے، ٹیسٹ کٹس تک دستیاب نہیں، اس گھمبیر صورت حال کا جائزہ لینے کیلئے آج کل شہباز شریف خود میدان میں نکلے ہوئے ہیں اور آئے روز کسی نہ کسی اسپتال پراچانک چھاپے مار رہے ہیں اور وہاں مسيحائي ڈھونڈتے پھر رہے ہيں اور مخدوش حالات پر انگلي اٹھا اٹھا کر اسپتالوں میں انتظامیہ، ڈاکٹرز اور نرسز پر جہاں برہمي کا اظہار کر رہے ہيں وہيں انہيں معطل کرنے کا فريضہ بھي بخوبی نبھا رہے ہيں اورجہاں بھي جارہے ہيں انہيں مايوسي کے سوا کچھ نہيں مل رہا۔

اسپتالوں ميں صحت و صفائي کي صورت حال ناگفتہ بہ ہے کہيں ڈاکٹر ہے، تو دوائي نہيں، دوائي ہے تو ڈاکٹرز نہيں ملتے، کروڑوں کي مشينري پڑي بيکارہو رہي ہے، لوگ مہنگے داموں ٹسيٹ مارکيٹ سے کرانے پر مجبورہيں، شہبازشريف اس بات کا بھی متعدد بار میڈیا کے سامنے اعتراف کرچکے ہیں کہ صحت عامہ پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود مثبت نتائج برآمد نہيں ہورہے،ڈاکٹرز سے تعاون مانگنے کی اپیلیں بھی کارگر ثابت نہیں ہورہیں، ان اچانک دوروں پر سابق وزيراعلي پنجاب پرويزالہي نے بھي ايک پريس کانفرنس ميں خوب تبصرہ کيا اور کہا کہ شہبازشريف نے اپنے 8 سالہ دور اقتدار ميں سرکاري سکولوں اور اسپتالوں کوتباہي کے دہانے پر پہنچا ديا ہے، اب وہ ان اداروں ميں اس تباہی کے کھنڈرات دیکھنے جاتے ہیں اور يہ اچانک دورے سستي شہرت کے حصول کے سوا کچھ نہيں ہيں۔

ڈاکٹرز، نرسیں اور پیرامیڈیکل سٹاف اسپتالوں میں سہولیات کے فقدان اورکم تنخواہوں کا رونا روتے ہوئے، اکثرسڑکوں پر احتجاج کرتے دکھائي ديتے ہیں۔ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ وہ ايک روپے کي پرچی پر صرف ادویات لکھ کر مریضوں کا علاج نہیں کرسکتے، اگر کسی بھی شہر کے کسي اسپتال کے آوٹ ڈوريا ایمرجنسی میں جانے کا کبھی اتفاق ہوتو تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی اور يوں محسوس ہوتا ہے کہ پورا شہر ہی بیمارپڑا ہے۔ اسپتالوں کی راہداریوں میں انسانیت تڑپتی اور سسکتی ملے گی، وارڈزمیں ایک ہی بیڈزپر کئی کئی مریض پڑے ملیں گے،گائنی وارڈز میں صورت حال بيان سے باہرہے، رش ايسا کہ اکثربچے تبدیل ہوجاتے ہیں یا پھراغواء۔

حکومت ہے کہ ميں نہ مانوں کيساتھ ساتھ آئے روز محکمہ صحت کو آپريشن تھيٹر ميں بيہوش کئے بغير اس پر سرجري کے نئے نئے تجربے کر رہي ہے، اب اس کی حالت سدھارنے کیلئے اسے دو حصوں ميں تقسيم کر کے کے دو الگ الگ سيکرٹريز ہيلتھ بھي لگا ديئے ہيں، ايک سیکریٹری بڑے اسپتالوں اور ميڈيکل کالجز کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے تو دوسرا، چھوٹے اسپتال ،ديہي مراکز صحت اور ڈسپينسريوں کا منتظم ہے، مگر حالات جوں کے توں ہيں۔ مريض مطمئين ہے اور نہ ہي طبي عملہ، ہاں ایک بات ہے کہ جن بڑے ٹيچنگ اسپتالوں میں شراکت داری کا نظام چل رہا ہے، وہاں کے طبي عملے اور انتظاميہ کي خوب موج ہے، غريب کو دھکے اور امیروں کیلئے فوری علاج کی سہولت دستیاب ہے، کیونکہ اس سے ہونیوالی آمدن سے ڈاکٹرز سے لیکر نرس اور پیرا میڈیکس تک کو55 فیصد اور اسپتال انتظامیہ کو45 فیصد شیئر ملتا ہے اور يہاں علاج معالجے بيڈز اور کنسلٹنسي فيس کيساتھ ساتھ ليبارٹري ٹيسٹوں کے بھي من چاہے نرخ ہيں۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان حالیہ آڈٹ رپورٹ کے مطابق پنجاب کے تمام بڑے ٹیچنگ اسپتالوں نے ٹیسٹوں کے نرخوں اوردیگر مدوں میں ازخود اضافہ کرکے عوام کی جیبوں سے گزشتہ سال نوئے کروڑ روپے نکال لئے اور پوچھنے والا بھی کوئي نہيں، اس کی ایک بہترین مثال پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور ہے، جہاں دل کے آپریش کیلئے غریب مریض کو تو تین تین سال تک کا ٹائم ميسر ہے، جب کہ امیر آدمی یا پروٹوکول والی شخصیت کا اگلے ہی روز آپریشن کا وقت مل جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پي آئي سي عملے کو گزشتہ سال من مرضي کي کمائي سے 26 کروڑ روپے کي آمدن ہوئي، خدارا سرکاری اسپتالوں میں پرائیویٹ علاج اور آپریشنزکا بھی خادم اعلی کو سخت نوٹس لینا ہوگا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اسپتالوں میں دستیاب سہولتوں سے مستفید ہوسکیں اور محکمہ صحت کیساتھ نئی نئی زیادتی اور تجربات سے بھی گریزکرنا ہوگا، دوسرا یہ کہ حکومت اگر پروفیسرز اور دیگر سینیر ڈاکٹرز کو ڈیوٹی کا پابند بنانے کیساتھ ساتھ اچانک دوروں کی بجائے ذمہ دار عناصر کے چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم بہتر بنائے تو صورت حال کافی حد تک بہتر ہوسکتی ہے۔ سماء