جنوبی پنجاب کو فاٹا نہ بنائیں
لاہور سے شروع ہونے والی گڈ گورننس کی لہر ملتان جاتے جاتے اتنی نحیف ہوجاتی ہے کہ اپنا اثر کھو بیٹھتی ہے ۔ شریف خاندان کو اختیارات کے ارتکاز کا اتنا شوق ہے کہ واضح آئینی تقاضے اور عدالتی احکامات کے باوجود سات سال تک بلدیاتی انتخابات کو لٹکائے رکھا ۔ صوبے کو ایک سلطنت کی طرح چلانے سے عوام کا بھلا ہوا نہ ملک کا ۔ اب لاہور کے علاقے گلشن اقبال میں دھماکے کے تانے بانے جنوبی پنجاب سے جوڑے جارہے ہیں ۔ اس علاقے کی حالت زار کا ذمہ دار جو بھی ہے ،قیمت اب پوری پاکستانی قوم کو بھگتنا پڑ رہی ہے ۔
ملتان ،ڈیرہ غازی خان ،بہاولپور ڈویژن کے تمام اضلاع جبکہ ساہیوال اور سرگودھا ڈویژن کے کچھ اضلاع مثلاً پاکپتن اور بھکر جنوبی پنجاب کا حصہ تصور کیے جاتے ہیں ۔ لاہور میں گلشن اقبال دھماکے کے بعد ہرطرف جنوبی پنجاب میں شدت پسندوں کے محفوظ ٹھکانوں اور نرسریوں کی بازگشت سنائی دی ۔ ان علاقوں میں شدت پسند عناصر کی موجودگی سے کسی کو انکار نہیں اور اس کی وجوہات بھی بالکل واضح ہیں ۔ سب سے بڑی وجہ ان علاقوں کی پسماندگی اور غربت ہے ۔ زیادہ تر آبادی خوراک کی کمی کا شکار ہے اور تعلیم و صحت کی سہولتیں بھی ناپید ہیں ۔ مقامی وڈیرے کی زیادتیاں ، پولیس اور پٹوار کے مظالم سونے پہ سہاگہ ہیں ۔ اسکولوں کی حالت زار دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں کس قسم کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ جنوبی پنجاب کے ساتھ ہی جڑے چند قبائلی علاقہ جات بھی مسئلے کی بہت بڑی وجہ ہیں ۔ ان قبائلی علاقوں کا ڈھیلا ڈھالا انتظامی ڈھانچہ عسکریت پسندوں اور اشتہاری مجرموں کے خلاف بے بس نظر آتا ہے ۔ ایسے حالات عسکریت پسند تنظیموں کےلیے آئیڈیل ہوتے ہیں اور اسی لیے وہ پوری طرح ان حالات کا فائدہ اٹھا رہی ہیں ۔
نیشنل ایکشن پلان کےتحت اگرچہ بہت کچھ کرنے کا اعلان کیا گیا مگر جنوبی پنجاب میں عسکریت پسندی کی نرسریاں ابھی تک پھل پھول رہی ہیں ۔ کہیں سیاسی مصلحت آڑے آرہی ہے تو کہیں قوت ارادی میں کمی معاملات کو مزید گھمبیر بنارہی ہے ۔
جنوبی پنجاب کو عسکریت پسندوں سے پاک کرنے کےلیے صرف آپریشن ہی کافی نہیں بلکہ طویل المدتی منصوبہ بندی کے تحت یہاں موجود احساس محرومی ختم کرنا ضروری ہے ۔ صنعت ،روزگار ، تعلیم ،صحت اورانفراسٹکچر کی بہتری کےلیے انقلابی اقدامات کرنا ہوں گے ۔ غربت کے مارے لوگوں کو احساس دلانا ہوگا کہ ریاست آپ کے بارے میں سوچ رہی ہے ۔ آپ کے بچوں کو تعلیم اور صحت دینا چاہتی ہے ۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں ۔ احساس محرومی کی وجہ سے لوگوں کی ریاست کے ساتھ وفاداری کمزور پڑتی جا رہی ہے اوروہ سیاسی قیادت کے رویے سے مایوس ہیں ۔
ان علاقوں میں موجود دینی مدارس کی اصلاحات بھی ایک ناگزیر قدم ہے ۔ مدارس کو ختم کرنا مسئلے کا حل نہیں بلکہ زیادہ بہتر ہوگا کہ ہر مدرسے میں حکومت اپنے تنخواہ یافتہ دو یا تین اساتذہ تعینات کرے جو بچوں کو نہ صرف دنیاوی تعلیم دیں بلکہ یہ ذمہ داری بھی ادا کریں کہ مدرسے میں شدت پسندانہ رجحانات کی ترویج نہ ہو ۔ وہ تمام تر سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور حکومت کو رپورٹ دیں ۔
فوری طور پر کرنے کا ایک اور کام یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے وعدے کی تکمیل کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی کی اس قرارداد پر عمل کرے جس کے تحت پنجاب میں دو نئے صوبے بنانے کی بات کی گئی تھی ۔ نئے انتظامی یونٹ بنائے بغیر لوگوں کے مسائل حل نہیں کیے جاسکتے ۔ تخت لاہور کو مطلق العنان بادشاہت کا تاثر ختم کرنا ہوگا اور جمہوری روایات پر عمل کرتے ہوئے لوگوں کو ان کے جائز حقوق دینا ہوں گے ۔
جنوبی پنجاب میں چونکہ زیادہ تر لوگوں کا دارومدار زراعت پر ہے اس لیے حکومت کو وہاں کسانوں کو مراعات دینا ہوں گی ۔ سستی بجلی ، بیج کھاد کی بروقت فراہمی ، آسان قرضے اور شوگر و آڑھتی مافیا کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے ۔
یہ اقدامات کیے بغیر جتنے بھی آپریشن کرلیے جائیں ،عسکریت پسندی ختم نہیں ہوگی بلکہ ایک شدت پسند مرے گا تو دو اور پیدا ہوجائیں گے ۔ ریاستی اداروں کو وہ ماحول تبدیل کرنا ہوگا جس کی وجہ سے ناپختہ ذہنوں کو ایک مخصوص ایجنڈے کے ساتھ خراب کیا جارہا ہے اور یہ تبھی ممکن ہو پائے گاجب ریاست ایک شفیق ماں کا کردار ادا کرے گی ۔