کمال کی ہٹی اور جنرل اسٹور

-----**  تحریر ؛ شاہد کاظمی  **-----

 

"کمال ہاؤس" اس وقت کراچی کی سیاست کا مرکز بنا ہوا ہے، بے شک نصرت جاوید کے بقول یہ ابھی صرف کمال دی ہٹی ہی ہے، لیکن کچھ معلوم نہیں کہ کب یہ ہٹی بڑے "جنرل اسٹور" میں تبدیل ہو جائے، ہٹی میں آغاز پہ سودا سلف کم ہی ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ گاہک کا رویہ پڑھا جاتا ہے کہ اس کا رجحان کس طرف ہے اور کون سی چیز زیادہ مقدار میں بکے گی، کچھ ایسا ہی اس وقت کمال کی ہٹی کا حال ہے، پہلے پہل مصطفیٰ کمال نے جب شُرلی چھوڑی تو یارانِ دل کے دل کچھ دھڑکے ضرور لیکن وہ یہ دیکھنے لگے کہ ہٹی میں نیا مال کون سا آتا ہے یا یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ گاہک اس انتظار میں تھے کہ ہٹی میں کون سا نیا آئٹم آتا ہے، پھر قائم خانی نے قیام کیا تو کچھ اُمیدیں بندھنا شروع ہوگئیں اور کچھ دیکھ بھال کے صغیر نے کبیر قدم اٹھا لیا، ان کا قدم اٹھانا تھا کہ رضا نے بھی کمال کی رضا میں اپنی رضامندی ظاہر کر دی، ہٹی نے جنرل اسٹور کا روپ دھارنا شروع کردیا ہے۔

KAMAL LEAVING SOT 24-03

انیس احمد ایڈووکیٹ اس کاروان کے تازہ ترین راہی ہیں، بعید از قیاس نہیں کہ جتنے پیادے سالار کی عدم توجہی کا شکار تھے یا پھر ستارانہ شفقت سے دور تھے وہ بہت جلد کمال کے باؤنسرز کا شکار ہو جائیں گے اور کمال کا ساتھ دینے پر آمادگی ظاہر کر دیں گے۔

مصطفی کمال کو جو شیوخ کے دیس میں اچھی بھلی ملازمت کے دوران یہ سوجھی ہے اس کی کچھ نہ کچھ وجہ تو ضرور ہے، اب اس کی وجہ اندرونِ جماعت ہے یا پھر بیرونِ جماعت، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ کمال نے کام باکمال کیا ہے، کیوں کہ ایک ہی پریس کانفرنس کے بعد جھاڑو ہاتھوں میں دھول سڑکوں پر۔

MQM STOP SAFAI PKG Mukkaram 22-03

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں منظم ترین سیاسی جماعتوں کا ذکر ہو تو سب سے اوپر صرف دو نام آتے ہیں، جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم اور لاکھ اختلافات سہی لیکن ان دونوں جماعتوں کا نظم باقی تمام سیاسی جماعتوں کیلئے نمونہ ہے، جہاں جیالے و شیر جلسوں میں کھانے کی پلیٹوں سے وار کرتے نظر آتے ہیں، لیکن بعض اوقات یہی نظم پارٹیوں کیلئے اندرونی سطح پر نقصان کا باعث بھی بنتا ہے، جیسے جماعت اسلامی سب سے زیادہ منظم ہونے کے باوجود آج تک ووٹ کی قوت حاصل نہیں کر پائی اور ایم کیو ایم کراچی اور سندھ کے کچھ شہری علاقوں سے ہٹ کر خود کو نہیں منوا پائی۔

Kamal Pc Venue Arrival New Khi 23-04

انیس احمد ایڈووکیٹ نے جو "درباری گدھ" کی نئی اصطلاح متعارف کروائی ہے وہ بھی اپنی جگہ دلچسپ ہے، بابا محمد یحییٰ خان نے اپنی کتاب "پیا رنگ کالا" میں گدھ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے گدھے کی خصلت کا تذکرہ بھی کیا ہے، گدھ ایک ایسا جانور ہے جو مردار کھاتا ہے اور جب کوئی جانور آخری ہچکیاں لے رہا ہو تو وہ اس کے سرہانے دم سادھ کر بیٹھ جاتا ہے اور زندگی کی آخری رمق ختم ہونے کا انتظار کرتا ہے، اب اس انتظار میں چاہے گدھ کی اپنی جان نکل جائے لیکن وہ آخری سانس نکلنے کا انتظار کرتا ہے، اور گدھا چاہے بادشاہوں کے پاس ہو یا فقراء کے پاس رہتا گدھا ہی ہے، مالک اچھا ہو یا برا بس بوجھ اٹھائے پھرتا ہے۔

Anees Advocate Hindi Pkg 21-03

اب جو انیسانہ رائے آئی ہے اس کے مطابق نہ جانے کون گدھ ہے اور کون گدھا، ایک طرف انہوں نے تشبیہ دیتے ہوئے ستاری حلقے کو گدھ سے منصوب کیا ہے لیکن وہ خود کو کس زمرے میں رکھ رہے ہیں؟، کیوں کہ گدھ تو وہ ہوگئے جو نوچنے کے انتظار میں ہیں، جو برداشت کرتے ہوئے گدھ کی طرح انتظار میں ہیں، مستقبل ان کا ہے یا پھر ان کا جو انتظار چھوڑ کر "کمال ہاؤس" کی زینت بن گئے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ لیکن بہر حال یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ساکن تالاب میں ارتعاش ضرور پیدا ہوگیا ہے، اس ارتعاش کا اثر اگر تالاب سے باہر پڑنے میں کامیاب ہو تو پھر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بقول انیس کے درباری گدھ اڑ سکتے ہیں لیکن اگر ارتعاش ویسا ہی ثابت ہوا جیسے گدھا جہاں بھی جائے گدھا ہی رہتا ہے تو پھر۔۔۔!

ANEES QUAID LAMBI UMAR SOT 21-03

گدھ صرف گدھ ہوتا ہے وہ نہ درباری ہوتا ہے نہ ہی عوامی، کیوں کہ اس کی خصلت خالصتاً برداشت ہے اور برداشت ایک ایسا عنصر ہے جو ایک طرف تو معاملات کو حل کی طرف لیکر جاتا ہے تو ساتھ ہی بعض اوقات ضرورت سے زیادہ برداشت سے مخالف فریق کیلئے ایسے مواقع پیدا ہو جاتے ہیں جو نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو دوام بخش دیتے ہیں، کمال ہاؤس سے جاری ہونے والے بیانات کو صرف "پاکیزہ" فلم کی طرف منسوب کرنے کے بجائے ضرورت اس امر کی ہے کہ عوامی سطح پر جوابات کا سلسلہ رضاکارانہ طور پر شروع کیا جائے، کیوں کہ اگر الزامات کا جواب نہ دیا گیا تو عوامی سطح پر عوام خود گدھ اور گدھے کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔

MUSTAFA KAMAL

anis advocate

Pak Sarzameen Party

PSP

Tabool ads will show in this div