
موسمی بیماریوں کا توآپ نے سنا ہی ہوگا شاید خود شکار بھی رہے ہوں جیسا کہ کسی بھی موسم کے آغاز یا اختتام پریا پھر سردی گرمی لگنے اور ٹھنڈا گرم کھانے پینے سے موسمی نزلہ زکام، کھانسی اور بخار میں مبتلا رہنا ایک عام سی بات ہے، جو وائرل سرکل تین یا زیادہ سے زیادہ سات دن میں پورا ہوتے ہی عام طور پر بیماری خود بخود ختم ہوجاتی ہے، اس کیلئے علاج معالجے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ توطبعیت بوجھل ہونے پرمریض جلد صحت یابی کیلئے ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں، لیکن آج بات ہوگی موسمی احتجاج یا مظاہرے کی جوہرسال ایک خاص سیزن میں ہی ہوتے ہیں اور ان کا کئی دہائیوں سے ہرسال اب معمول بن چکا ہے، یہ سیزنل مظاہرے عام طور پر بجٹ کی تیاری کیساتھ ہی مارچ کے وسط میں شروع ہوتے ہیں اور جون کے آخر تک بجٹ منظور ہونے تک جاری رہتے ہیں۔

ان مظاہروں کا بنیادی مقصد حکومتوں پر دباو ڈالنا اور توجہ حاصل کرنا ہوتا ہے تاکہ بجٹ کی تیاری کے دوران ارباب اختیار کو اپنے مطالبات سے آگاہی دی جاسکے اور مقصد کا حصول یقینی بنایا جاسکے، ان مظاہرہ کرنیوالوں میں صرف سرکاری ملازم ہی نہیں تاجر طبقہ،صنعت کار، کسان اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد بھی شامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج کل ملک بھر بالخصوص پنجاب میں ان موسمی مظاہروں کی وجہ سے محاذ خاصا چل رہا ہے۔
ڈاکٹرز، نرسز، پیرامیڈیکس، اساتذہ، سرکاری اداروں کے کلرکس اور دیگر ملازمین کیساتھ ساتھ تاجر برادری سڑکوں پر سراپا احتجاج ہے، کوئی تنخواہوں اور سروس اسٹرکچر اور ترقیوں کے حصول کیلئے مصروف عمل ہے تو کوئی ٹیکسز اور ڈیوٹیوں میں چھوٹ اور مراعات کیلئے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔

ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکس تو لاچار مریضوں کو اسپتالوں میں ٹرپتا چھوڑ کر کم تنخواہوں اور سروس اسٹرکچر کا رونا روتے آئے روز مختلف شہروں کی سڑکوں پر مارچ پاسٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں اور انہوں نے سیزنل مظاہرے کو کافی حد تک مستقل شکل ہی دے رکھی ہے۔ معمولی سی بات پر ایمرجنسی سروسزبند کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ بالخصوص پنجاب میں توحکمرانوں نے بھی اپنی خو نہیں بدلی اور،میں نہ مانوں ،،کی ضد پر قائم ہے، جب کہ طبی عملے نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اپنے حلف سے روگردانی کرتے ہوئے کام نہ کرنے کی قسم اٹھارکھی ہے، یہی وجہ ہے کہ اسپتالوں میں مسیحائی ایڑیاں رگڑتی اور زندگی سسکتی دکھائی دیتی ہے۔

ان موسمی مظاہروں میں اساتذہ، ڈاکٹرز، پیرامیڈیکس اور کلرکس عوام کی مشکلات سے قطع نظر اپنے حقوق کا راگ الاپتے اور دوسروں کے حقوق کی ہٹ دھرمی سے تلفی کرنے میں مگن رہتے ہیں، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ بیچارےعوام اہم شاہراوں کی احتجاج سے بندش پرگھنٹوں ٹریفک جیم میں پھنسے ہیں اوران کے معمولات زند گی درہم برہم ہورہےہیں یا ٹریفک میں پھنسی ایمبولینس میں کوئی مریض دم توڑ رہا ہے یا رکشے میں کوئی خاتون بچے کو جنم دے رہی ہے اور سرکاری دفاتر میں سائلیں اور اسپتالوں میں مریض اذیت سے دوچار ہیں۔

پنجاب میں 50ہزار کے لگ بھگ ڈاکٹرز،25ہزار نرسز، جب کہ تین لاکھ سے زائد اساتذہ سال ہا سال سے سروس اسٹرکچر، اپ گریڈیشن اور ترقیوں کے حصول کیلئے سڑکوں پر ہیں اور اسی طرح صوبے کے دس لاکھ کلرکوں کو بھی انہی مشکلات کا سامنا ہے، اگرچہ ان کی تنخواہوں میں متعدد بار اضافہ ہوچکا ہے اور ہزاروں ملازمین کی اپ گریڈیشن بھی ہوچکی ہے مگر مظاہرین مہنگائی کے تناسب سے ان مراعات کو کم سمجھتے ہیں، کافی حد تک حکومتیں بھی ان مظاہروں کی پروردہ ہیں جو حالات کا ادراک رکھتے ہوئے جان بوجھ کر عجیب و غریب فیصلے کرتی ہیں وہ تنخواہوں کا معاملہ ہو یا کوئی اور جیسا کہ پہلے مالی بجٹ میں جان بوجھ کر سالانہ سات سے دس فیصد تک سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں اضافے اور دیگرمراعات کا اعلان کیا جاتا ہے جب ملازمین اس کم اضافے پر احتجاج کرتے ہیں تو ان احتجاجی مظاہروں کی شدت کا اندازہ لگا کر اس میں تھوڑا بہت اضافہ کر دیا جاتا ہے۔

حکومت بھی اکثرمعاملات کوحسب معمول بیوروکریسی کے رحم وکرم پر ہی چھوڑدیا جاتاہے۔ان نامکمل مطالبات کوجوازبناکر ملازمین احتجاج اورہڑتال کے نام پراکثرسڑکوں ،دفاتر،تعلیمی اداروں اورہسپتالوں میں عوام کا ناک میں دم کئے رکھتے ہیں۔۔حکومتیں یہی رویہ تاجروں،صنعتکاروں اورکسانوں سے روارکھے ہوئے ہیں ۔مطالبات پورے ہوں یا نہ ہوں البتہ یہ موسمی مظاہرے اکثرماہ جون میں ختم ہوجاتے ہیں کچھ ساراسال اکادکاجاری بھی رہتے ہیں۔۔عوامی حلقوں کا شکوہ ہے کہ سیزنل مظاہرین اپنااحتجاج ریکارڈ ضرور کروائیں لیکن اہم شاہراوں کو گھنٹوں بند کر کے دوسروں کے حقوق بھی سلب نہ کریں، جب کہ حکومت بھی مظاہرین کے جائزمطالبات کی منظوری میں تساہل سے کام نہ لے۔ سماء