
اول تو مملکتِ خداداد میں کہیں سے خیر کی خبر آتی نہیں، آ بھی جائے تو یار دوست وہ اودھم مچاتے ہیں کہ الامان الحفیظ۔ کاتب تقدیر کی مہربانی سے پنجاب اسمبلی نے تحفظ خواتین کا قانون منظور کیا تو جب بھی ایسی ہی صورت حال دیکھنے کو ملی، جیسے بم دھماکوں میں پچاس ہزار پاکستانیوں کا خون بہنے پر خاموش رہنے والوں کا اسلام خطرے میں پڑ گیا۔ ناجائز منافع خوری ، رشوت ، جعلسازی اور جھوٹ پر پُراسرار خاموشی اختیار کرنے والے اس نئے قانون پر بہت تلملا رہے ہیں ، مقصد معاشرتی اصلاح نہیں بلکہ اپنے ووٹرز کو مطمئن کرنا ہے۔

اس قانون کے ناقد ایک مولانا کا تو ستونِ حیات ہی انہی برائیوں پر استوارہے مگر وہ منبر و محراب کا ایسا استعمال کرتے ہیں کہ بڑے بڑے مداری بھی ان کے سامنے ہیچ ہیں۔ راہ چلتی خواتین کو گھورنے ، آوازیں کسنے یا انہیں تعلیم سے محروم کرکے ساری ساری زندگی گھروں میں قید رکھنے کے خلاف کسی جوشیلے خطیب نے کبھی ایسی شعلہ بیانی نہیں دکھائی جو اس قانون کی منظوری پر دکھائی گئی۔

افسوسناک کی بات یہ ہے خواتین کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے حامی اسلام کو جواز بناتے ہیں، یہ دراصل وہ اسلام ہے جو طالبان نے متعارف کرایا اور بعد میں قبائلی روایات کو مذہب سے گڈ مڈ کردیا گیا۔ ان روایات کا اچھا یا برا ہونا ایک علیحدہ بحث ہے مگر اس کا اسلام سے اس طرح کوئی تعلق نہیں جس طرح '' آئین کے تناظر '' میں بات کرنے والے ہمارے معروف مولانا بیان فرما رہے ہیں۔

پنجاب میں نافذ ہونے والے تحفظ خواتین بل کا بنیادی مقصد مختصراً '' مار نہیں پیار '' ہے اور اس سے خاندانی نظام کے کمزور ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، تنقید کرنے والوں کیلئے عرض ہے کہ جبر کے ذریعے کسی گھر میں قبرستان جیسی خاموشی تو لائی جاسکتی ہے مگر سکون نہیں، بچوں کی پرورش اور گھروں کا نظام سنبھالنے میں دن رات ایک کرنے والی خواتین پر جبر و تشدد کو روکنے پر اعتراض کا کیا مطلب ہے ؟۔

گزشتہ دنوں سامنے آنے والے ایک سروے نے حیران کن حقائق بیان کیے کہ طلاق کی شرح زیادہ تر ورکنگ ویمن میں ہے جو اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ پڑھی لکھی اور باشعور خواتین جب گھر کی باندی بننے سے انکار کرتی ہیں تو یہ بات مرد حضرات کیلئے قابل قبول نہیں ہوتی، نتیجہ طلاق کی صورت میں نکلتا ہے، اب یا تو خواتین کو جاہل رکھ کر گھروں میں قید کردیں یا پھر مرد حضرات خواتین کو اپنا غلام بنانے کی بجائے حقیقتاً شریک حیات بنالیں۔

خواتین پر تشدد کا معاملہ کسی مخصوص کلاس تک بھی محدود نہیں بلکہ یہ ایک ایسی سماجی برائی ہے جو غریب ، متوسط اور امیر ہر طبقے میں پائی جاتی ہے ۔ ریاستی اداروں کو اس نئے قانون کے اطلاق میں کسی اثر و رسوخ سے بالا تر ہوکر کام کرنا ہوگا ۔ ویسے بھی کسی قانون کی موجودگی اُس جرم کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے ہی روکنے میں معاون ثابت ہوتی ہے کیونکہ قانون کا خوف ہی موثر ہتھیار ہے ۔

تحفظ خواتین قانون کا اگرجائزہ لیں تو اس کے تحت مجوزہ ويمن پروٹيکشن سینٹرز کا قیام بھی اہم ضرورت تھا ۔ ماضی میں ایسی صورت حال پر متاثرہ خواتین کو دارالامان بھجوایا جاتا اور ان کی مشکلات کم ہونے کی بجائے بڑھ جاتیں۔
قانون میں اس بات کا بھی خیال رکھا گیا ہے اس کا غلط استعمال نہ ہو، جھوٹی شکايت کرنے پر خاتون کو تين ماہ قيد اور پچاس ہزار روپے جرمانہ تجویز کیا گیا ہے۔ بہرحال انسانوں کے بنائے گئے قوانین میں بہتری کی گنجائش ہروقت رہتی ہے، تاہم تنقید مثبت انداز میں ہونی چاہیے اور ہمارا سفر پیچھے کی بجائے آگے کی جانب ہونا چاہیے۔ سماء