امن کی جیت،انتہا پسندی کی ہار
تحریر: شہباز احمد
پھر وہی موقع، ویسا ہی ماحول ، حالات بھی تقریباً ایک جیسے اور دھمکیاں بھی وہی پرانی کہ بھیا یہاں قدم رکھا تو پچ اکھاڑ دیں گے ۔ پاکستان کرکٹ ٹیم بھارت جا رہی ہو اور کوئی تنازعہ کھڑا نہ ہو بھلا کیسے ممکن ہے۔ یوں لگتا ہے کہ پاکستانیوں خصوصاً کرکٹ ٹیم کی مخالفت کا ٹھیکہ دنیا میں ایک ہی کمپنی نے اٹھایا ہوا ہے۔ہندوانتہا پسند سیاسی جماعت شیوسینا ، شائننگ انڈیا کا اصلی چہرہ دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے کبھی نہیں جانے دیتی۔
مجھے نہیں یاد پڑتا کہ کبھی پاکستانی ٹیم بھارت جا رہی ہو اور شیوسینا کے پیٹ میں مروڑ نہ اٹھاہو۔اخباری کارٹونسٹ بال ٹھاکرے نے 1966 میں علاقائی سیاسی جماعت بنائی تو مراٹھیوں کے حقوق کے لئے تھی لیکن بعد میں لگتا ہے اس کی سیاست کا محور پاکستان دشمنی اور انتہا پسندی ہی بن کر رہ گیا۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے سب سے بڑے مقابلے کا میدان سجنے سے پہلے ہی اجاڑنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ ہماچل پردیش حکومت کے پاکستانی ٹیم کو تحفظ نہ دینے کے بیان نے کوئی کم بھونچال کھڑا کیا تھا ۔ میچ کو کولکتہ منتقل کیا گیا تو شیوسینا اپنا منجن بیچنے پھر میدان میں آ گئی۔ وہی روایتی بیان بازی کہ بھائی ایڈن گارڈن کی پچ اکھاڑ دیں گے۔
انتہا پسند جماعت پاکستان کرکٹ دشمنی کے حوالے سے داغ دار ماضی رکھتی ہے اور کئی مواقع پر حکومت پر دباؤ ڈال کر کرکٹ تعلقات خراب کرنے کی کوشش کر چکی ہے۔سب سے بھیانک واقعہ 1991 میں پیش آیا جب پاکستان کو ممبئی میں کھیلنے سے روکنے کے لئے شیوسینا والوں نے وینکھیڈے اسٹیڈیم کی پچ اکھاڑ دی ، جس سے نہ صرف ممبئی ٹیسٹ بلکہ پوری سیریز ہی ملتوی ہوگئی ۔
1999 کی پاک بھارت ٹیسٹ سیریز کئی حوالوں سے مشہور بلکہ بدنام بھی ہے۔ پاکستان ٹیم کی آمد پر شیوسینا کے زبردست احتجاج پر ممبئی ٹیسٹ ملتوی کرنا پڑا۔ سورماؤں کا غصہ اسی پر ٹھنڈا نہ ہوا اور دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ سٹیڈیم کی پچ اکھاڑ دی ۔ لیکن اس کے باوجود میچ کو ممکن بنایا گیا۔ یہ وہی ٹیسٹ تھا جس میں بھارتی لیگ سپنر انیل کمبلے نے ایک ہی اننگز میں دس وکٹیں حاصل کر کے وہ ریکارڈ بنایا جو آج تک قائم ہے۔
سن1999 میں ہی شیوسینا کرکٹ دشمنی میں اس انتہا کو پہنچی ہوئی تھی کہ ان عقل کے اندھوں نے بی سی سی آئی کے دفتر پر دھاوا بول کر اپنی ہی ورلڈ کپ ٹرافی کو نقصان پہنچایا۔ قومی ٹیم کے 2005 میں دورہ بھارت کے خلاف شیو سینا کے کارکنوں نے ممبئی میں دھرنا دیا لیکن بات نہ بنی ۔2006 میں ممبئی دھماکوں کے بعد انتہاپسندوں نے کشیدہ حالات کا ایک بار پھر فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کی شرکت پر بھرپور صدائے احتجاج بلند کی۔ لیکن تمام تر دھمکیوں کے باوجود شاہینوں نے جے پور اور موہالی میں میچ کھیلے ۔2009 میں آئی پی ایل کے دوسرے ایڈیشن میں پاکستانی کھلاڑیوں کی شمولیت پر اعتراض اٹھایا گیا۔ پاکستانیوں کے حق میں بولنے پر انتہا پسند تنظیم سپر اسٹار شاہ رخ خان کے بھی خلاف ہو گئی۔2011 میں بیان سامنے آیا کہ اگر پاکستانی ٹیم ورلڈکپ کے فائنل میں پہنچی تو اسے کھیلنے کی اجازت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ شیوسینا کرے گی۔ وہ تو پاکستان کی قسمت اچھی تھی کہ بھارت کے ہاتھوں سیمی فائنل میں ہی ہار گئی ورنہ پتا نہیں کیا بنتا۔2012 میں بھارت کے مختصر دورے پر آئی پاکستان کا کوئی بھی میچ ممبئی میں رکھنے پر ایک بار پھر سخت احتجاج کی دھمکی دی گئی۔ بھارتی بورڈ نے بھی کسی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لئے مصلحتاً ممبئی میں میچ نہ رکھا۔
حال ہی میں بی سی سی آئی کے صدر دفتر پر چڑھائی کر کے دونوں ملکوں کے بورڈ سربراہان کی ملاقات منسوخ کرا دی گئی اور شیوسینک بھارت کی خوب جگ ہنسائی کا باعث بنے۔ دونوں ملکوں کے درمیان سیریز کا معاملہ نہ صرف دفن ہو گیا بلکہ بھارت، جنوبی افریقہ کے درمیان جاری سیریز سے علیم ڈار کو امپائرنگ اور وسیم اکرم، شعیب اختر کو کمنٹری سے روک کر وطن واپس بھجوا دیا گیا۔
صرف کھلاڑی ہی نہیں بھارت میں پاکستانی اداکاروں، گلوکاروں اور ادیبوں کی موجودگی اور شوز میں شمولیت پر بھی احتجاج کیا جاتا رہا ہے۔ گزشتہ سال غلام علی اور عاطف اسلم کے کنسرٹ ملتوی کرائے گئے۔ سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی کتاب کی تقریب رونمائی کرانے پر اپنے ہی ملک کے معروف کالمسٹ سدھیر کلکرنی کے منہ پر سیاہی پھینک دی۔
بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ شیوسینا کی دھمکیاں گیڈر بھبھکیوں کے سوا کچھ نہیں جن کا مقصد حالات خراب کر کے میچ سے پہلے کھلاڑیوں کو نفسیاتی دباؤ میں لانا ہے۔ کیوں کہ ریکارڈ پر نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کہ ہر مرتبہ احتجاجی بیان بازی کے باوجود اسے اپنے مقصد میں کامیابی کم ہی ملی ہے۔ اور اب کی بار بھی میگا ایونٹ میں پاکستان کا میچ منسوخ کرانے کی کوشش میں اسے منہ کی کھانا پڑے گی۔کیونکہ آخر میں جیت تو امن اور کھیل کی ہی ہو گی ۔