سازشی تھیوریاں
سازشی تھیوریاں تخلیق کرنے کا کوئی آسکر ایوارڈ ہوتا تو یقیناً ہرسال اہل پاکستان ہی اس کے حقدار ٹھہرتے ۔ ملک میں کوئی بھی بڑا واقعہ پیش آجائے اس کا معروضی اور حقیقت پسندانہ انداز میں تجزیہ کرنے کی بجائے ہم سازشی تھیوریوں کا سہارا لیتے ہیں ۔ اپنی خامیاں نظر انداز کرتے ہیں اور مسائل کو حقیقت پسندی سے حل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے ۔زیادہ تر واقعات کے ڈانڈے ہم یہود و ہنود سے ملاکر بری الذمہ ہوجاتے ہیں ۔ جب یورپ اور امریکہ کی بڑی تعلیمی درسگاہوں کا ذکر ہو تو ہم بڑے فخر سے مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو یاد کرکے خود کو مطمئن کرلیتے ہیں ۔
جب ترقی یافتہ ممالک کی دفاعی صلاحیت کا جائزہ لیا جائے تو ہماری تان محمد بن قاسم اور ٹیپو سلطان پر جاکر ٹوٹتی ہے ۔ حالیہ عرصے میں ایک تھیوری 2005 کے ہولناک زلزلے کے بعد سامنے آئی ۔ تھیوری کے تخلیق کار بڑی دُور کی کوڑی لائے اور فرمایا یہ کسی ایٹمی تجربے کی ناکامی کا شاخسانہ ہے اور حقائق عوام سے چھپائے جارہے ہیں ۔
ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت ابھی کل ہی کی بات ہے ۔ ملک کے سب سے بڑے اخبار میں ایک دانشور صاحب اپنے کالموں کے ذریعے یہ دعوے کیے جارہے ہیں کہ ایبٹ آباد میں ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ہی نہیں ۔ امریکہ پاکستان کو بدنام کرنے کےلیےایک فرضی کہانی سنا رہا ہے ۔ سازشی تھیوری پیش کرنے کی یہ بھی ایک کلاسک مثال ہے ۔ امریکہ میں نائن الیون پر بھی طرح طرح کی سازشی تھیوریاں سامنے آئیں ۔ دبئی میں جراحی کرتے کرتے اینکر بننے والے ایک ڈاکٹر صاحب کی '' تحقیق'' تو لوگوں کو بڑی ہی پسند آئی جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ نائن الیون کے واقعات در اصل امریکہ نے خود کرائے تاکہ مسلمان ممالک پر حملہ کرکے قبضہ کیا جائے، ان سے کوئی یہ پوچھے کہ کیا مسلمان ممالک پہلے امریکہ کے قبضے سے آزاد ہیں جو اس نے اتنا خطرناک اور اپنے لیے نقصان دہ کام کیا ؟ ۔
ایک اور دلچسپ سازشی تھیوری بے نظیر بھٹو کی شہادت پر سامنے آئی ۔ جب 2008 کے الیکشن کے بعد ملک کے صدر منتخب ہونے والے آصف علی زرداری کی جانب اشارے کئے گئے تاہم ان نام نہاد دانشوروں کے پاس کوئی دلیل یا ثبوت نہیں تھا ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آصف زرداری میں کئی خامیاں ہوسکتی ہیں مگر یہ تھیوری کسی معقول آدمی کےلیے ہضم کرنا مشکل ہے کہ وہ اقتدار کےلیے اپنے بچوں کی ماں اور پاکستان کی ایک مقبول لیڈر کو خود قتل کرادیں ۔
پاکستان میں زبان زد عام ایک اور تھیوری موسم برسات میں سیلاب آنے پر سامنے آتی ہے ۔ وہ یہ کہ بھارت کی جانب سے بغیر بتائے دریاؤں میں پانی چھوڑدیا گیا ہے ۔ جب بھی سیلاب آتا ہے تو ہمارے تھیوری میکر یہ کہہ کر خود کو مطمئن کرلیتے ہیں کہ دشمن ملک بھارت نے بغیر بتائے پانی چھوڑ دیا تاکہ پاکستان میں تباہی آجائے ۔ یہ سوچنے کی ہم میں توفیق نہیں کہ گزشتہ اتنے برسوں میں ہم نے کتنے آبی ذخائر بنائے ؟۔ کیا ملک کی واٹر پالیسی مستقبل کی ضروریات کے مطابق ہے ؟ ۔ درحقیقت ایسا ہرگز نہیں اور پاکستان میں جو سیلاب آتے ہیں یا پانی کی قلت ہوتی ہے تو وہ سب ہماری اپنی وجہ سے ہے ۔ ہم خود تو آبی ذخائر بنانے کی ذمہ داری سے تقریباً بری الذمہ ہیں اور الزام دھر دیتے ہیں بھارت پر ۔
سازشی تھیوری کے کچھ شاہکار نمونے شرمین عبید چنائے کو آسکر ایوارڈ اور ملالہ یوسفزئی کو نوبل انعام ملنے پر سامنے آئے ۔ عالمی سطح پر پاکستان کی بیٹیوں کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کرنے کی بجائے ہم نے اس میں بھی سازشیں تلاش کرنا شروع کردیں ۔
شرمین عبید کی فلم کو پاکستان کی بدنامی کا باعث قرار دیا گیا تو ملالہ یوسفزئی کو امریکہ کا ایجنٹ ۔ نہ کوئی منطق ہے اور نہ استدلال ، تھیوریاں پیش کرنے والوں کی آوازیں اونچی ہیں مگر دلائل کمزور ہیں ، ساتھ ہی مذہب اور وطن پرستی کا تڑکا لگا کر یہ افراد اختلاف رائے کرنے والوں پر کفر کے فتوے لگانے میں دیر نہیں لگاتے ۔
سازشی تھیوریاں پیش کرنا دراصل ایک نفسیاتی عارضہ ہے جو حقیقت سے فرار میں ہماری مدد کرتا ہے اور خوابوں کی دنیا بسانے میں ہمارا معاون ہوتا ہے ۔ حقیقت پسندی ، انسان کو آئینہ دکھاتی ہے تاکہ وہ اپنی خامیوں کو تسلیم کرے اور پھر ان پر قابو پانے کی کوشش کرے ۔ سازشی تھیوریاں پیش کرکے لوگوں میں الجھن تو پیدا کی جاسکتی ہے مگر ان کا بھلا نہیں ہوسکتا ۔ حقیقت پسندی سے مسائل کے حل کی کوششیں محنت طلب ضرورہیں مگر دنیا میں معزز مقام پانے کےلیے اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ۔ کم ازکم سازشی تھیوریاں پیش کرکے ہم سپر پاور نہیں بن سکتے ۔