متحدہ کے گردشی ستارے
ایسے موسم میں جب سردی چور دروازے سے آئی اور بنا برسے واپس چلی گئی۔ ایسے میں پاکستانی سیاسی موسم میں بھی کچھ بِن بلائے مہان نازل ہوئے ہیں۔ جن کی وجہ سے سیاسی درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ دیکھا جارہا ہے۔
ان بِن بُلائے سیاستدانوں کی حرکات، سکنات، خیالات اور ارادے دیکھ کر لگ رہا ہے کہ اگر مزید چند ایسےسیاسی جھٹکے لگے تو اس کی لپیٹ میں متحدہ آسکتی ہے اور متحدہ کا مہاجر ووٹ بنک، متحدہ کو چھوڑ کر نئی پارٹی کا مزہ چکھنے پارٹی بدل سکتے ہیں۔
ایک طرف تو کراچی میں چند سیاستدانوں کے اچانک ضمیر جاگ جانے کی وجہ سے متحدہ کو سیاسی مسائل کا سامنا ہے اور دوسری طرف متحدہ کو کراچی کی صفائی کا خیال آگیا ہے۔ حالانکہ ابھی متحدہ کو صرف بلدیاتی انتخابات میں اکثریت ملی ہے اور متحدہ کا میئر آنا باقی ہے۔ جس کے لئے وسیم اختر کو منتخب کیا گیا ہے۔
کراچی کے سابق ناظم ایسے موقع پر نازل ہوئے ہیں کہ جب لندن سے قائد تحریک الطاف حسین کی علالت کی خبریں سامنے آرہی ہیں اور انتہائی بے خبر تجزیہ کاروں کے مطابق مصطفی کمال نے متحدہ پر ایسے وقت حملہ کیا ہے۔ جب متحدہ کے علیل سربراہ ناصرف عمران فاروق قتل کیس اور منی لانڈرنگ کیس میں زیر تفتیش ہیں بلکہ متحدہ کے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ساتھ مبینہ تعلقات کا ڈھنڈورا بھی خوب پیٹا جارہا ہے۔
ایسے میں جب متحدہ ڈگمگا رہی ہے تو مصطفی کمال نے نئی پارٹی کا اعلان کردیا ہے جس میں متحدہ کے کچھ رہنما نومولود پارٹی کی پریس کانفرنسز میں جلوہ گر ہوکر متحدہ کے خلاف راگِ ضمیر الاپ رہے ہیں۔
ممکن ہے کہ کسی کی طرف سے اس وقت کا چناؤ متحدہ کی پتلی حالت اور سندھ میں پائے جانے والے متحدہ کے ووٹ بنک کو دیکھ کر کیا گیا ہو۔ ایسے میں اگر کوئی بڑا سیاسی جھٹکا لگتا ہے تو ممکنہ نقصان متحدہ کو ہوسکتا ہے چونکہ ایسی حالت میں ووٹرز کی پسند متحدہ کی بجائے مصطفی کمال کی پارٹی ہوگی۔
مصطفی کمال کے سامنے آنے والے بیان سے تو لگتا ہے کہ وہ ٹی ٹوینٹی نہیں بلکہ ٹیسٹ میچ کھیلنے کا ارادہ لئے پاکستان آئے ہیں۔ اسی وجہ سے انھوں نے کہا ہے کہ وہ ضمنی انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کو پاکستان لانے والے انھیں کچھ وقت دیں گے۔ تاکہ مزید سوئے ہوئے ضمیروں والے متحدہ کے رہنما اس نئی پارٹی میں شریک ہوکر مزید رنگ جمائیں اور خوب ہلہ گلا کریں۔
متحدہ تو کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد کراچی کا گند ٹھکانے لگا رہی ہے اور متحدہ سے تعلق رکھنے والے سابق ناظم کراچی چند ساتھیوں کے ہمراہ متحدہ کے اہم رہنماؤں کو چھانٹ چھانٹ کر میڈیا پر لارہے ہیں۔ متحدہ کےرہنما دورانِ مہم جھاڑو تھامے ایک طرف تو حکومتی گند کو صاف کرنے کا کہہ رہے ہیں اور دوسری جانب اپنے ناراض سابق ناظم کی طرف سے اچھالی گئی چھینٹوں سے بچنے کی کوششیں بھی کرتے ہیں۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ مصطفی کمال یہ چاہتے ہوں کہ متحدہ وسیم اختر کی جگہ انھیں کراچی کا میئر نامزد کرے اور اس وجہ سے وہ سوتے ضمیر کو جنجھوڑ کر اٹھاتے ہوئے کراچی پہنچ گئے ہیں۔ مگر صرف کراچی کی میئرشپ کی خاطر کوئی مصطفی کمال کو کیوں نئی پارٹی شروع کرنے کی حمایت کرے گا۔ یقیناً اس بے موسمی سیاسی کروٹ کے پیچھے لمبے سیاسی عزائم ہی ہونگے۔