ایشیاء کپ شاہینوں کا منتظر
تحریر: نسیم خان نیازی
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے پہلے 24 فروری سے بنگلہ دیش میں ایشیاء کپ ٹی ٹوئنٹی کا معرکہ سجنے کو ہے۔ اس بار پاکستانی ٹیم روائتی پریکٹس کے برعکس پاکستان سپر لیگ کے کامیاب انعقاد کے بعد ایونٹ میں شرکت کرنے جارہی ہے۔ قومی ٹیم میں جہاں کئی خوبیاں ہیں وہیں تجزیہ کاروں کی جانب سے کچھ خامیوں کی نشاندہی بھی کی جارہی ہے۔ ٹیم میں چند کھلاڑیوں کی سلیکشن بظاہر میرٹ پر نہیں لگتی۔
سب سے بڑا سوالیہ نشان بیٹسمین خرم منظور کی سلیکشن ہے جنہیں پی ایس ایل کی کسی ٹیم نے گھاس نہیں ڈالی مگر وہ قومی ٹیم کا حصہ ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق ڈومیسٹک کرکٹ میں 68 ٹی ٹوئنٹی میچ کھیل کر ان کی ایوریج 29 رنز فی اننگز ہے۔ خرم منظور 2009 میں اس قومی ٹیم کا حصہ تھے جب سری لنکا کی ٹیم پاکستان آئی تھی اور اس پر حملہ ہوگیا تھا، ایک ون ڈے میچ میں خرم منظور کو موقع ملا مگر وہ صرف 3 رنز بناکر آوٹ ہوگئے تھے۔ آج کل بھی ان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں کوئی غیرمعمولی کارکردگی نہیں تھی۔ خرم منظور کی جگہ احمد شہزاد اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود ایک بہتر آپشن تھے بہرحال سلیکٹرز نے انہیں نظر انداز کردیا۔
اس کے علاوہ پی ایس ایل میں افتخار احمد کی کارکردگی دیکھی جائے تو ان کی بھی قومی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی۔ افتخار احمد کراچی کنگز کا حصہ تھے اور تینوں میچز میں بیٹنگ میں ناکام رہے، پھر بھی انہیں ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے نزدیک پاکستان ٹیم کا ایک اور مسئلہ باولنگ اٹیک میں کسی ماہر اسپنر کا نہ ہونا بھی ہے۔ آل روانڈر شاہد آفریدی، شعیب ملک، عماد وسیم اور محمد نواز میں سے کوئی بھی ماہر اسپنر نہیں ہے۔
بہرحال ان خامیوں کے ساتھ کچھ ایسی خوبیاں بھی ہیں جو پاکستان کو دوسری ٹیموں سے ممتاز کرتی ہیں۔ خاص طور پر پی ایس ایل میں عمدہ کارکردگی کی بنیاد پر ٹیم میں شامل ہونے والے نوجوان کھلاڑی شرجیل خان اور محمد نواز جو فیصلہ کن مہرے ثابت ہوسکتے ہیں۔ محمد سمیع کی بھی کافی عرصے بعد ٹٰیم میں شمولیت کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ سمیع نے پی ایس ایل میں عمدہ باولنگ سے اپنی اچھی کارگردگی دکھائی ہے۔ آخری وقت میں اگرچہ بابر اعظم اور رومان رئیس کے ان فٹ ہونے سے نقصان ہوا لیکن پاکستان کے پاس شرجیل خان اورمحمد سمیع کی صورت میں ان کے متبادل موجود ہیں۔ پاکستانی ٹیم میں کئی سینئر اور تجربہ کار کھلاڑیوں کی موجودگی بھی بہت حوصلہ افزاء ہے اور ان کھلاڑیوں کو پی ایس ایل میں بہترین میچ پریکٹس ملی ہے۔
کپتان شاہد خان آفریدی بیٹنگ میں فلاپ ہوں تو باولنگ میں اپنا کام دکھا رہے ہیں۔ محمد حفیظ بھِی بیٹنگ کی بھرپور فارم میں ہیں، وہاب ریاض کی باولنگ میں بھی نکھار آتا جارہا ہے۔ سرفراز احمد نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی طرف سے عمدہ کپتانی کے ساتھ ساتھ بیٹنگ میں بھی کارکردگی دکھائی۔ شعیب ملک اور عمر اکمل مڈل آرڈر میں چل گئے تو پاکستان بڑا اسکور کرنے میں کامیاب رہے گا۔ خاص طور پر عمر اکمل اگرچہ گزشتہ کچھ عرصے میں انٹرنیشنل میچز میں ناکام رہے لیکن ان کے پاس بہت اسٹروک ہیں۔
فاسٹ باؤلر محمد عرفان اور محمد عامر کا ملاپ بھی بیٹسمینوں کو خاصا پریشان کرے گا کیونکہ دونوں ہی بائیں بازو کے باولر ہیں اور قدرتی طور پر آوٹ سوئنگ میں مہارت رکھتے ہیں۔ ساتھ ہی انورعلی بھی اسکواڈ کا حصہ ہیں اور انہیں بھی آزمایا جاسکتا ہے۔ عماد وسیم بھی ایک اچھے آل راونڈر کی حیثیت سے ٹیم میں جگہ بناچکے ہیں اور ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں بہت فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں۔
پاکستان کے علاوہ جو ٹیمیں ایشیا کپ میں حصہ لے رہی ہیں ان میں بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش شامل ہیں جب کہ متحدہ عرب امارات، اومان، افغانستان اور ہانک کانگ میں سے ایک ٹیم کوالی فائنگ راونڈ جیتنے کے بعد ٹورنامنٹ میں شامل ہوگی۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ایشیا کپ ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کی بنیاد پر ہورہا ہے۔ اس سے پہلے کھیلے گئے بارہ ٹورنامنٹس ون ڈے میچز کی بنیاد پر ہوئے ہیں۔ ان ٹورنامنٹس میں سری لنکا اور بھارت پانچ، پانچ مرتبہ جبکہ پاکستان دو مرتبہ یہ ٹائٹل جیت چکا ہے۔ پاکستان نے 2000 میں سری لنکا اور 2012 میں بنگلہ دیش کو فائنل میں شکست دی تھی۔ ایشیاء کپ کا پہلا میچ 24 فروری کو بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان ہوگا۔ پاکستان اپنا پہلا میچ 27 فروری کو بھارت کے خلاف کھیلے گا اور اس طرح ٹورنامنٹ کا آغاز ہی اعصاب شکن مقابلے سے ہوگا۔ پاکستانی شائقین پرامید ہیں کہ شاہین ایشیا کپ کا سہرا اپنے سر پر سجا کر وطن لوٹیں گے۔