
امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل کو اس سال فروری میں 14 برس ہو گئے ۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے رپورٹر ڈینیئل پرل نائن الیون کے بعد پاکستان میں القاعدہ اور طالبان کے گٹھ جوڑ کا سراغ لگانے آئے اور زندہ واپس نہ جاسکے۔
عجیب اتفاق ہے کہ ان کی موت کے تقریباً 14 برس بعد اُسی مہینے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ نے ایسی سازش کو ناکام بنانے کا انکشاف کیا جس میں ڈینیئل پرل کے سزا یافتہ قاتلوں کو جیل سے فرار کرانا تھا۔ ڈینیئل پرل کی ہلاکت کے معاملے پر بات کرنے سے پہلے ہالی ووڈ کی اسی موضوع پر سال 2007 میں بننے والی فلم '' آ مائٹی ہارٹ '' کا جائزہ لیتے ہیں ۔

اینجیلا جولی نے اس میں ڈینیئل کی بیوی کا کردار ادا کیا تھا،جو اس کے لاپتا ہونے کے بعد پاکستان میں اس کی بازیابی کےلیے کوششیں کرتی رہی۔ فلم میں پاکستانی اداکار عدنان صدیقی اور بھارتی فلم اسٹارعرفان خان کے کردار بھی دلچسپی سے خالی نہیں، جس میں وہ آئی ایس آئی کے افسر بنے۔ فلم میں پاکستان میں القاعدہ کے نیٹ ورک، سیکیورٹی ایجنسیز، شدت پسندوں کے روابط اور ان کی کارروائیوں کو بہت موثر اورحقیقی انداز میں پیش کیا گیا۔
فلم کی بیشتر شوٹنگ کراچی میں ہوئی، کئی حقیقی کردار مثلاً اس وقت کے صدر پرویز مشرف، امریکی وزیر خارجہ کولن پاؤل، اس وقت کے انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ اور ڈینیئل پرل کے قتل میں ملوث عمر شیخ بھی فلم میں دکھائے گئے۔

ڈینئیل پرل کی کہانی میں اس فلم کے ذریعے جو کچھ بتایاگیا تھا اس سے امریکیوں سمیت فلم دیکھنے والوں نے پاکستان کے بارے میں دو نتائج اخذ کیے، اؤل یہ کہ پاکستان میں 2002 میں اعلیٰ ترین سطح پر اچھے اور برے طالبان کا تصور موجود تھا، دوئم یہ کہ آئی ایس آئی کسی بھی پیچیدہ سے پیچیدہ کیس کو سلجھانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور فلم کے ذریعے اس کے افسروں کو انتہائی مستعد اور عقلمند دکھایا گیا۔
یہ تو تھا فلم کا جائزہ ، اب حقیقی واقعات کی طرف آتے ہیں ۔پرل کے اندوہناک قتل کے پس پردہ واقعات انتہائی حیرت انگیز ہیں، جنوری 2002 میں ڈینیئل کی گمشدگی کے بعد ایک غیرمعروف تنظیم دی نیشنل موومنٹ فار دی ریسٹوریشن آف پاکستانی سوورینٹی کی جانب سے دھمکی آمیز پیغام منظر عام پر آیا کہ اگر 24 گھنٹوں کے اندر گوانتاناموبے میں قید پاکستانیوں کو رہا نہ کیا گیا، پاکستان کو ایف 16 طیارے فراہم نہ کیے گئے اور تاوان ادا نہ کیا گیا تو امریکی صحافی کو ہلاک کر دیا جائے گا، جس کے بعد تواتر سے واقعات سامنے آنے لگے۔

21 فروری 2002 میں یعنی آج سے تقریبا 14 سال پہلے پاکستانی حکام کو ایک ویڈیو موصول ہوئی جس میں ڈینیئل پرل کی ہلاکت دکھائی گئی تھی، مئی میں کراچی سے ہی ایک سر بریدہ لاش ملی جو ڈی این اے رپوٹ کے مطابق ڈینئیل پرل کی تھی۔
کراچی میں احمد عمر شیخ، فہد نعیم، سید سلمان ثاقب، اور شیخ عادل کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، حیدرآباد میں خصوصی عدالت نے عمر شیخ کو سزائے موت اورسلمان ثاقب، فہد نسیم اور شیخ محمد عادل کو عمر قید کی سزائیں سنائی تھیں۔
عمر شیخ پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہے، اسے کالعدم تنظیم جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کے ساتھ دسمبر 1999ء میں بھارتی جیل سے اس وقت رہائی ملی تھی جب بھارت کے مسافر طیارے کو اغواء کرکے قندھار لے جایا گیا تھا۔ عمر شیخ کے بارے میں ایک اور دلچسپ بات یہ بھی سامنے آئی تھی کہ جیل میں کئی لوگ حتی کہ بعض ملازمین بھی اس کی شخصیت سے متاثر ہوکر اس کے ہم خیال بننے لگے تھے، جس کے بعد خطرے کی بو سنگتے ہوئے جیل حکام نے عمر شیخ کی سیکیورٹی پر تعینات اہلکاروں کو تیزی سے تبدیل کرکے معاملے کو کنٹرول کیا۔ حال ہی میں عمر شیخ کو جیل سے فرار کرانے کی جس سازش کو پکڑنے کا انکشاف کیا گیا ہے، اس کے مطابق سازش میں ملوث کالعدم تنظیم کے دہشت گرد اپنے مقاصد کے قریب پہنچ گئے تھے۔

ڈینیئل پرل کے قتل میں ایک اور کردار بھی ہے جس کا نام خالد شیخ محمد ہے، جو نائن الیون کا ماسٹر مائنڈ ہونے کی بنا پر امریکا میں قید ہے۔ امریکی ایف بی آئی کے مطابق پرل کو خالد شیخ محمد ہی نے قتل کیا تھا، جب کہ عمر شیخ اس کا معاونت کار تھا، عمر شیخ خود بھی یہ تسلیم کرتا ہے کہ اس نے اغوا میں مدد کی لیکن جب یہ واقعہ پیش آیا تو وہ کراچی میں نہیں تھا، بہرحال یہ کہانی اب اپنے انجام کے قریب ہے۔
ڈینیئل پرل کی اس افسوسناک کہانی کے دوران پاکستانیوں نے اپنی قومی سیاست اور سیکیورٹی پالیسی کے کئی نشیب و فراز دیکھے، ہم نے بہت سی الجھنوں سے جان چھڑائی جن میں اچھے اور برے طالبان کی تمیز ختم ہونا سب سے اہم ہے۔
اسی دوران دہشت گرد پسند تنظیموں کا وجود ختم کرنے کی جانب پیشرفت ہوئی اور نیک نیتی سے کراچی کو مافیاز سے نجات دلانے کا آغاز ہوا ۔ ان تبدیلیوں سے امید کی جاسکتی ہے کہ کوئی اور ڈینیئل پرل اس پاک سرزمین پر ناحق قتل نہیں ہوگا۔ سماء