کالمز / بلاگ

پاکستان کے موسیقارگھرانے

music title

تحریر: نسیم خان نیازی

جب کوئی قوم سماجی و معاشی میدانوں میں غلامی قبول کرلے تو اس کی زبان و ثقافت کی بقا بھی خطرے میں ہوتی ہے ۔ برصغیر کی روایتی کلاسیقی موسیقی کے ساتھ بھی یہی کچھ ہورہا ہے ۔ پانچ سو سال  پر محیط تہذیبی ورثہ خطرات سے دوچار ہے کیوں کہ اس کے حقیقی وارث مالی مشکلات اور لوگوں کی جانب سے پذیرائی نہ ملنے کے باعث اپنے فن سے کنارہ کشی اختیار کررہے ہیں ۔ سیاسی و معاشی انحصاری کے بعد ہم لوگ موسیقی میں بھی مغربی رجحانات کا اثر لے رہے ہیں حالانکہ اس میں بے ہنگم شور اور اچھل کود کے سوا کچھ نہیں ۔

برصغیر میں کسی گھرانے کی چار یا زائد نسلوں کے اس فن سے جڑے رہنے کے بعد اسے موسیقار گھرانے کا درجہ دیا گیا ۔ ملک میں اس وقت چار ایسے موسیقار گھرانے ہیں جن کی موجودہ نسل بھی اس فن کو دلجمعی سے آگے بڑھا رہی ہے ۔

ان گھرانوں میں پٹیالہ ، شام چوراسی ، گوالیار اور قصور گھرانے شامل ہیں ۔

amanat

پٹیالہ گھرانے سے تعلق رکھنے والے حامد علی خان ، امانت علی خان ، اسد امانت علی اور حسین بخش گلو کو تو پی ٹی وی کی بدولت بچہ بچہ جانتا ہے ۔ اس گھرانے میں شامل حسین بخش گلو کی ٹھمری اور غزل کا تو شائد ہی کوئی ثانی ہو ۔ اس گھرانے کی نئی نسل میں شفقت امانت علی خان اور ولی حامد علی خان جدید اور کلاسیقی موسیقی کے امتزاج سے نئے تجربات کررہے ہیں ۔ حامد علی خان کے بقول ان کے بیٹے اور بھتیجے نے بینڈ بنا کر نہ صرف لوگوں میں قبولیت حاصل کی بلکہ پیسہ بھی خوب کمایا ہے ۔ یہ نوجوان مسحور کردینے والی تال تخلیق کرنے میں ماہر ہیں اور گائیکی کے دوران واضح پتہ چلتا ہے کہ اساتذہ سے سُر تال سیکھ کر اس میدان میں آئے ہیں ۔

 shafqat salamat ali

موسیقی کا دوسرا بڑا گھرانہ شام چوراسی ہے اور یہ نام بھارتی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے ایک گاؤں کا ہے جس سے اس خاندان کا تعلق تھا ۔ سلامت علی خان ، شفقت سلامت علی خان، لطافت علی خان ،نزاکت علی خان  اور رفاقت علی خان شام چوراسی گھرانے کے گائیک  ہیں ۔ ان کے بزرگ استاد تصدق علی خان نے کلاسیکی موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد استاد ولایت علی خان سے حاصل کی۔ انہیں کلاسیکی موسیقی کی مختلف اصناف میں بہت مہارت حاصل تھی جن میں دھرپد کی گائیکی، خیال کی گائیکی ، ترانہ، لے کاری، غزل اور گیت شامل ہیں۔

gwaliyar 3

گوالیار گھرانے کا نام بھی بھارتی صوبے مدھیہ پردیش کے ایک شہر کی نسبت سے رکھا گیا ہے ۔ اس گھرانے میں فتح علی خان ، غلام رسول خان ، منظور علی خان اور امید علی خان شامل ہیں  ۔ نظام حیدرآباد کے دربار میں اگر داغ دہلوی شاعر کی حیّثیت سے تھے تو اس دربار کے گائیک ''بنے خان'' تھے جو استاد منظور علی خان کے جد امجد تھے۔ استاد فتح علی خان کی نسبت سے ایک غلط فہمی کی وضاحت ضروری ہے کہ نصرت فتح علی اور راحت فتح علی کا ان سے کوئی تعلق نہیں ۔ نصرت فتح علی خان کا خاندان افغانستان سے تعلق رکھتا تھا اور استاد فتح علی خان کا تعلق بھارت سے ہے ۔

chotay ghulam ali

قصور گھرانہ بھی موسیقی کی دنیا میں کسی سے پیچھے نہیں ۔ موجودہ دور میں اس گھرانے کی پہچان سجاد علی ہیں جنہوں نے جدید میوزک آلات کے ساتھ غزلیں اور گیت گاکر لوگوں کو اپنا گرویدہ بنایا ہے ۔ سجاد علی کا گانا چیف صاحب تو اب زبان زد عام ہے ۔ قصور گھرانے کے نامور گائیک استاد چھوٹے غلام علی خان تھے اور سجاد علی ان کے نواسے ہیں ۔

sajjad ali

موسیقار گھرانوں کے ذکر کا مقصد نوجوان نسل کو موسیقی کے حقیقی تخلیق کاروں اور گلوکاروں سے روشناس کرانا ہے ۔ متذکرہ بالا تمام گلوکاروں کی وڈیوز اور آڈیوز انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں اور موسیقی سے دلچسپی رکھنے والے ان سے مستفید ہوسکتے ہیں ۔ ان کی گائیکی کےاعلیٰ نمونے اہل ذوق کےلیے کسی نعمت سے کم نہیں ۔

CLASSICAL MUSIC

sham chorasi gharana

patiala gharana

kasuri gharana

sajjad ali

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div