کالمز / بلاگ

کینو کی ناقدری

orange

تحریر نسیم خان نیازی

قدرت کی مہربانیوں پر بحیثیت قوم ناشکری کرنے میں اس کرہ ارض پر شاید ہی ہمارا کوئی ثانی ہو۔حکومتی زعما تو بلند بانگ دعوؤں پر مبنی شعلہ بیانی کے ساتھ عملی طور پر کچھ نہ کرنے کا ایسا عزمِ کرچکے ہیں کہ اس ضمن میں بین الاقوامی مقابلہ ہو تو پاکستان کی پہلی پوزیشن کہیں نہیں گئی ۔ کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو ایک کمیٹی بنادیں ، پھر کمیٹی جانے ، مسئلہ جانے اور عوام جانے ۔ حکمرانوں کی سردردی ختم ۔کچھ ایسا ہی معاملہ پاکستان میں کینو کی پیداوار کو درپیش ہے جو ہرسال بہتر ہونے کی بجائے کم ہورہی ہے۔

قارئین کےلیے یہ بات شاید دلچسپی سے خالی نہیں کہ پاکستانی کینو جیسی شکل اور ذائقہ والا کینو دنیا میں اور کہیں پیدا نہیں ہوتا ۔ اس ضمن میں کئی ممالک میں تجربات کیے گئے مگر وہ کینو پیدا نہ ہوسکا جیسا پاکستان میں ہورہا ہے ۔ اس سے ملتے جلتے ترش  پھلوں کو بین الاقوامی منڈی میں وہ پذیرائی بھی نہیں ملی جو پاکستانی کینو کو ملی ۔ کینو کی 60 سے 70 فیصد پیداوار پنجاب کے ڈویژن سرگودھا میں ہورہی ہے ۔سال 2015  میں یہاں سے 14 لاکھ ٹن کینو پیدا ہوا ہے جبکہ ملک بھر میں پیداوار کا حجم تقریباً 20 لاکھ ٹن ہے ۔ گزشتہ سیزن میں 3.5 ٹن کینو برآمد کیا گیا جبکہ اس سال صرف ڈیڑھ سے 2 لاکھ ٹن کینو برآمد کیے جانے کی توقع ہے ۔ ماہرین کے مطابق پیڑ سے اتارنے کے بعد کینو کو تقریباً 90 دن تک  2.5  ڈگری سنیٹی پرمحفوظ رکھا جاسکتا ہے ۔

orange1

کینو کی پیداوار میں کمی اورمختلف بیماریوں کے حملے کی وجہ سے ہم آگے کے بجائے پیچھے جارہے ہیں ۔ چند روز پہلے آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز ، امپورٹرز ایسوسی ایشن نے وزیراعلی پنجاب کو خط لکھ کر معاملے کی سنگینی کی جانب توجہ دلانے کی کوشش کی ہے مگر ہمارے خادم پنجاب بھی سوچتے ہوں گے کہ یہ کون عجیب قسم کے لوگ ہیں جو ان کی توجہ میٹرو اور اورنج لائن جیسے اہم منصوبوں سے ہٹانے کی سازش کرکے ملکی ترقی کی راہ روکنا چاہتے ہیں ۔

  اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی سرگودھا تشریف لائے تودوہزارنو میں  کئی خوشنما وعدے کرکے گئے جن میں سیزنل ڈرائی پورٹ قائم کرنے کا اعلان بھی شامل تھا ۔ منصوبے کا مقصد کینو کی برآمد میں آسانیاں پیدا کرنا تھا ۔ زیادہ سے زیادہ 6 ماہ میں مکمل ہونے والا منصوبہ 7 سال گزرنے کے باوجود ابھی تک التوا کا شکار ہے ۔ کسی کے پاس یہ سوچنے کا وقت ہی نہیں ایک منتخب وزیراعظم کے وعدے کو پایہ تکمیل تک کیسے پہنچایا جاسکتا ہے اور اس کے کیا فوائد ہوسکتے ہیں؟

orange4

ایگریکلچر یونیورسٹی فیصل آباد کے زیر انتظام سرگودھا میں سٹرس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم ہے مگر وہ بھی مقامی کاشتکاروں کی رہنمائی کرنے میں مسلسل ناکام نظر آرہا ہے ۔ کینو میں بیماریوں کے حملے بڑھتے جارہے ہیں اور پیداوار میں کمی ہورہی ہے ۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان کا انمول کینو زیادہ تر خلیجی ممالک ، وسط ایشیائی ریاستوں ، روس ، فلپائن ، ایران اور چین کو برآمد ہوتا ہے جبکہ کئی اور ممالک کی طرف سے بھی پاکستانی کینو کی مانگ سامنے آرہی ہے ۔ دوسری طرف ہم ہیں کہ قدرت کے اس تحفے پر کسی ریسرچ یا بہتری کی بجائے مسلسل لاپروائی کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ ماہرین کے مطابق طویل المدتی منصوبہ بندی سے صرف کینو کی برآمد کے ذریعے پاکستان 1 ارب ڈالر کا زرمبادلہ کما سکتا ہے۔

orange2o

کینو کے کاشتکار کے ساتھ اس سے بھی بڑا ظلم یہ ہے کہ کینو کا جوس نکالنے والی فیکٹریاں کاشتکاروں سے 70 سے 80 روپے من کے حساب سے خرید رہی ہیں ۔ اگرچہ یہ کینو سی گریڈ ہوتا ہے مگر پھر بھی حساب لگائیں کہ ایک من کینو سے کتنا جوس نکلتا ہوگا اور پیکنگ کے بعد یہ عوام کو کس بھاؤ ملتا ہے ۔ وضاحت کےلیے عرض ہے ، ایک من کینو سے نکلنے والے جوس کے  شائد صرف 2 گلاس ہی اس کی لاگت پوری کردیتے ہیں اورباقی تمام جوس سرمایہ دار کا منافع ہے ۔

سرگودھا میں کینو کی گریڈنگ ، پالشنگ اور پیکنگ کےلیے بھی تقریباً 300 چھوٹی بڑی فیکٹریاں کام کررہی ہیں جن سے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے ۔ اگر کینو کی پیداوار بڑھے گی تو ان فیکٹریوں میں کام کرنے والے افراد کےلیے روزگار میں بھی اضافہ ہوگا ۔ سرکاری مراعات سے مستفید ہونے والے حکام اگر تھوڑی سی معقولیت کا مظاہرہ کریں تو ایک تیر سے کئی شکار کئے جاسکتے ہیں ۔ قدرت کی مہربانی سے بیش بہا مواقع ہمارے منتظر ہیں اور یہ ہم پہ منحصر ہے کہ ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کا قصد ہم کب کرتے ہیں ۔

orange production

kinnow

citrus fruits of pakistan

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div