یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا۔۔۔
تحریر: کوکب مرزا
دوسروں کی فکر میں دبلا ہونے کا مرض قوم کو عرصے سے لاحق ہے۔ اپنا آشیانہ بھلے سے جل رہا ہوں مگر فکر پھر بھی آس پڑوس کی کرتے ہیں کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔ بحیثیت قوم ہمیں بڑے بڑے معاشرتی مسائل درپیش ہیں مگر کس کو فرصت کہ ان کے بارے میں سوچے یا سمجھے۔ چلو مسائل کے حل کی اصل ذمہ داری تو حکمرانوں کی بنتی ہے لیکن ان کے ضمیر کو جھنجھوڑنا عوام کا ہی کام ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایک چلن بڑا عام ہے، ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ جاؤ۔ منزل کی کسے پروا، یہاں وہی دکھتا اور بکتا ہے جو ہم چاہیں۔ گزشتہ دنوں کرنسی اسمگلنگ میں ملوث ماڈل ایان علی کا کیس ہمارے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا ہوتا تھا کہ جس کے آگے دیگر تمام مسائل پس پشت چلے جاتے تھے۔ مد نظر تھا تو بس اتنا کہ اب کیا ہوگا، ایان علی پر فرد جرم عائد کردی جائے گی یا اسے رہا کرالیا جائے گا۔ وہ معاملہ ٹھنڈا ہوا تو آج کل کرپشن اور دہشت گردوں کی معاونت کے الزام میں گرفتار سابق مشیر پیٹرولیم اور نجی اسپتال کے مالک ڈاکٹر عاصم کی حراست ہاٹ ٹاپک ہے۔ کیس زیرسماعت ہے مگر ہم تخیل کی پرواز کے سہارے نہ جانے کہاں کہاں تک تانے بانے بن رہے ہیں۔
ایک مسئلہ حل ہوتا نہیں دوسرا شروع ہو جاتا ہے اور سوچ کے تمام رخ اسی جانب مڑجاتے ہیں۔ کبھی پوری قوم ایان علی کیلئے پاگل ہورہی ہوتی ہے تو کبھی میرا کی شادی اور انگریزی سے بڑا ایجنڈا کوئی نہیں دکھتا۔ کبھی ریما نے بیٹے کا نام کیا رکھا جیسی سوچیں ستاتی ہیں تو کبھی یہ بے چینی لاحق ہو جاتی ہے کہ وزیراعظم کی نواسی نے اپنی شادی پر کس ڈیزائنر کا تخلیق کردہ لباس پسند کیا۔ فلاں ڈرامہ بڑا ہٹ جارہا ہے، ہیروئن کی ساس اس پر ظلم کرتی ہے ،ہائے اللہ اب بیچاری کا کیا ہوگا۔ کبھی فیس بک کے بانی مارک زکر برگ کو 90 فیصد شیئرز عطیہ کردینے پر سراہا جاتا ہے تو کبھی مس یونیورس کا نام غلط پکارے جانے پر تمام تر ہمدردیاں رنر اپ کے ساتھ ہو جاتی ہیں کہ تھوڑی سی دیرکی خوشی تھی۔
سیاست کے میدان میں بھی یہی حال ہے، سب کو بخوبی علم ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ جماعت کی کارکردگی تو ایک طرف انفرادی حیثیت میں بھی ہمارے لیڈران زیر بحث آتے ہیں اور خوب آتے ہیں، گھر پر بیگم کے ساتھ، محلے میں دوستوں کے ساتھ، دفاتر میں ساتھیوں کے ساتھ حتیٰ کہ سودا سلف لینے جاؤ تو دکاندار کے ساتھ بھی اپنی دانست میں سیاست پر سیر حاصل بحث کی جاتی ہے لیکن اس بحث کا دائرہ بس یہاں تک محدود ہوتا ہے کہ فلاں وزیر نے اتنا پروٹوکول لیا، فلاں ان دنوں دبئی کے دورے پر ہے، فلاں اپنے ساتھ سرکاری خرچ پر گھر والوں کو بھی بیرون ملک لے گیا، فلاں نے اتنا کمیشن لیا، فلاں نے سیاسی مقاصد کیلئے بیٹی کی شادی اس خاندان میں کی تو فلاں خاتون نے ایسی جیولری اور ڈریس پہنا تھا۔ مگر کوئی یہ نہیں سوچتا کہ حضرت ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں، ان سیاستدانوں کو منتخب بھی آپ ہی کرتے ہیں اور ووٹ دیتے وقت مدنظر بس جذباتی وابستگیوں کو رکھتے ہیں، کارکردگی کو نہیں۔
دوسروں کے رہن سہن اور طرز زندگی پر نگاہ خاص کے بجائے کبھی یہ بھی تو سوچا جائے کہ اللہ نے ہمیں اشرف المخلوقات بناکر بھیجا ہے، انفرادی اور اجتماعی دونوں حیثیتوں میں ہم پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جن کا احساس خال خال ہی کسی کو ہوتا ہے، ورنہ اکثریت اسی میں خوش ہے کہ کھاؤ پیو، گھومو پھرو، عیش کرو اور بس۔
کسی دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنانے سے پہلے خود شناسی سے کام لے کر اپنا محاسبہ بھی کر لینا چاہئے کہ ہماری ذات سے کسی اور کو اگر فائدہ نہیں پہنچ رہا تو نقصان بھی نہ پہنچے۔ اپنے اذہان کو منفی کے بجائے مثبت سرگرمیوں کیلئے استعمال کریں، چھوٹی چھوٹی باتوں سے خوشیاں کشید کرنا اور بانٹنا سیکھیں تو بہت سوں کا بھلا ہوجائے گا، کسی بھی بات کو انا کا مسئلہ بنانے یا سنی سنائی پر شدید رد عمل دکھانے کے بجائے تصدیق کرلیں تو آدھے سے زیادہ مسائل خود ہی حل ہوجائیں۔
انگریزی زبان کی ایک کہاوت کے مطابق عظیم دماغ خیالات پر تبادلہ خیال کرتے ہیں، عامیانہ دماغ واقعات پر گفتگو جبکہ چھوٹے دماغ لوگوں پر رائے زنی کرتے ہیں۔
مختصر یہ کہ زندگی کے تمام شعبوں میں دیانت اور صداقت کو ترجیح دیں۔ دوسروں کی ٹوہ میں رہنے کے بجائے اپنی ذات کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہیں تو کسی کو دوسرے سے شکایت نہیں ہوگی۔ بس اتنا یاد رکھیں کہ صحت مند معاشرے صحت مند عادات سے پروان چڑھتے ہیں۔