ناظم جوکھیو قتل کیس،جام عبدالکریم کی حفاظتی ضمانت منظور
سندھ ہائی کورٹ نے رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم بجار کی 3 دن کی حفاظتی ضمانت منظور کرلی۔
جمعرات 14 اپریل کو ناظم جوکھیو قتل کیس میں جام عبدالکریم کریم اوردیگرملزمان کی درخواست ضمانت کی سماعت ہوئی۔
عدالت نے رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم بجار کی 3 دن کی حفاظتی ضمانت منظور کرلی۔
عدالت نے ملزم جام عبدالکریم بجار کوانسداد دہشت گردی عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ کیس کا چالان آگیا ہے تونامزد ملزمان ٹرائل کورٹ سے رجوع کریں۔
جام عبدالکریم کے وکیل نے بتایا کہ چالان میں میرے موکل جام عبدالکریم کا نام ہی نہیں ہے۔
ناظم جوکھیو کا ویڈیو بیان
سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر اردو اور سندھی زبان میں بدھ 30 مارچ کو ناظم جوکھیو کی بیوہ کا ویڈیو بیان سامنے آیا تھا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم جوکھیو سمیت تمام ملزمان کو خون معاف کر دیا تھا۔ ناظم جوکھیو کی بیوہ شیریں جوکھیو نے یہ بات اپنے پہلے ویڈیو بیان میں بولی تھی۔ ویڈیو بیان میں ناظم جوکھیو کی بیوہ شیریں جوکھیو نے یہ بھی کہا کہ میں بہت مجبور ہوں، میرے گھر والوں نے میرا ساتھ چھوڑ دیا ہے، اپنے بچوں کی خاطر میں نے سب ملزمان کو چھوڑ دیا۔
شیریں جوکھیو نے کہا ہے کہ میں نے فیصلہ اللّٰہ تعالی پر چھوڑا ہے، جنہوں نے میرا ساتھ دیا میں ان کی شکر گزار ہوں اور اس ویڈیو کے ذریعے سب کو بتانا چاہتی ہوں کہ میں مزید نہیں لڑسکتی۔
پس منظر
مقتول 27 سالہ ناظم جوکھیو کراچی کے نواحی ضلع ملیر کے گاؤں آچر سالار جوکھیو کے رہائشی اور ضلع کونسل کراچی کے ملازم تھے۔ ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے جن کی عمریں دو سال سے چھ سال تک ہیں۔ سال 2021 نومبر میں ملیر میں ناظم جوکھیو نے چند غیر ملکی شکاریوں کو اپنے علاقے میں تلور کا شکار کرنے سے روکا تھا، بعد میں سوشل میڈیا پر جاری ویڈیو پیغام میں خدشہ ظاہر کیا تھا انہیں اب مار دیا جائے گا۔ اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد ناظم جوکھیو کی تشدد زدہ لاش برآمد ہوئی تھی۔
کیس کا مقدمہ
ناظم جوکھیو کے بھائی افضل جوکھیو کی جانب سے قتل کا مقدمہ درج کرایا گیا تھا لیکن بعد میں انہوں نے مقدمے میں جام عبدالکریم کا نام مرکزی ملزمان سے ہٹوایا، جس کے بعد میڈیا میں یہ اطلاعات عام ہوئیں کہ انہوں نے ڈیل کی ہے لیکن افضل نے اس کی تردید کی۔ اسی عرصے میں مدعی شیریں جوکھیو نے عدم اعتماد پر مقدمے کے وکلا تبدیل کیے۔
پولیس کے تحقیقاتی افسر بھی تبدیل ہوئے جب کہ کئی ماہ کی تاخیر کے بعد مقدمے کا چالان پیش کیا گیا اور مدعی کی درخواست پر عدالت نے حکم جاری کیا کہ اس میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات شامل کی جائیں، جس کے بعد اس میں یہ دفعات شامل کر کے متعلقہ عدالت کو مقدمہ منتقل کیا گیا۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ابھی یہ مقدمہ زیر سماعت ہی نہیں آیا۔ مقدمے کی پیروی کرنے والی انسانی حقوق کی کارکن شیریں کھوکھر کا کہنا تھا کہ پراسیکیوٹر جنرل آفس نے یہ مقدمہ ابھی بھیجا ہی نہیں ہے۔ یاد رہے کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے مطابق ورثا قصاص و دیت کے مطابق ملزمان کو معاف نہیں کرسکتے، کراچی میں رینجرز اہلکاروں کی فائرنگ میں سرفراز شاہ اور شاہ رخ جتوئی کے مقدمات بھی اس کی مثال کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔