غذائی نالی کے کینسر میں اضافے کی وجوہات اور بچاؤ
طبی ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان میں غذا کی نالی کا کینسر بڑھ رہا ہے، تمباکو نوشی اور شراب سے پرہیز، پھلوں اور سبزیوں سے بھرپور صحتمند غذا کا استعمال، ورزش اور معدے سے تیزابیت کا بروقت مناسب علاج کراکے غذائی نالی کے کینسر سے بچا جاسکتا ہے، دنیا میں اموات کی یہ چوتھی بڑی وجہ ہے، پہلے یہ سرطان عمر رسیدہ افراد میں ہوتا تھا تاہم اب پان، گٹکا اور چھالیہ کے بڑھتے ہوئے استعمال کے سبب یہ نوجوانوں میں بھی پھیل رہا ہے۔
ڈاؤ میڈیکل کالج کے معین آڈیٹوریم میں بدھ کے روز سول اسپتال کے سرجیکل یونٹ کے اشتراک سے غذائی نالی کے کینسر سے متعلق آگاہی سیشن کا انعقاد کیا گیا، جس سے وائس چانسلر ڈاؤ یونیورسٹی پروفیسر محمد سعید قریشی، معروف گیسٹرو انٹرولوجسٹ ڈاکٹر سعد خالد نیاز، ماہر امراض سرطان ڈاکٹر نجیب نعمت اللہ، ڈاکٹر عرفان داؤدی اور پروفیسر ساجدہ قریشی نے خطاب کیا۔
ڈاکٹر نجیب نعمت اللہ نے کہا کہ دنیا میں کینسر سے ہونے والی اموات کے 2020ء کے اعداد و شمار کے مطابق غذائی نالی کے کینسر سے ہونیوالی اموات تمام کینسر سے ہونیوالی اموات کا 5.5 فیصد تھیں اور اس کینسر کی شرح 3.1 فیصد ہے۔
ڈاکٹر سعد خالد نیاز کا کہنا تھا کہ غذا کی نالی کے کنسر کی ابتدائی مرحلے میں تشخیص کیلئے فی الحال کوئی ٹیسٹ دستیاب نہیں ہے، آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے طریقے استعمال کئے جارہے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ دیگر علامات سے اس کی تشخیص پر توجہ دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ کہ عام طور پر لوگوں کے ذہن میں بائیوپسی کے بارے میں غلط تصورات ہیں تو کوئی اینڈواسکوپی کے بارے میں اپنے غلط خیالات رکھتا ہے، یہی غلط تصورات اور خیالات علاج کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
ڈاکٹر ساجدہ قریشی نے بتایا کہ کھانا نگلنے میں دشواری، وزن میں غیر معمولی کمی، کھانے کا حلق میں پھنسنا یا دوبارہ واپس آنا، اس مرض کی علامات ہیں، اس مرض کی ابتداء میں تشخیص کے ذریعے علاج ہوجاتا ہے اور مریض معمول کی زندگی کی طرف لوٹ آتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کراچی میں مردوں میں غذائی نالی کے کینسر کی شرح 6.8 فیصد اور خواتین میں 5.3 فیصد ہے، ڈاؤ یونیورسٹی کے زیر انتظام سول اسپتال کراچی کا سرجیکل یونٹ پاکستان کا واحد مرکز ہے جہاں غذائی نالی کے کینسر کا جدید ترین اور مفت علاج ہوتا ہے۔
پروفیسر محمد سعید قریشی کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے غذائی نالی کے کینسر کے بارے میں آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے، سرکاری سطح پر غذائی نالی کے کینسر کے علاج کی سہولیات بڑھائی جائیں، اینڈواسکوپی کے یونٹس قائم کئے جائیں، مرض کی ابتدائی مراحل میں تشخیص کیلئے ضروری ہے کہ تعلقہ اسپتالوں میں مختلف امراض کے ماہرین کی تعیناتی کی جائے اور بڑے پیمانے پر نوجوان ڈاکٹرز کی گیسٹرو اینٹرولوجی کے شعبے میں تربیت کی جائے۔