امپورٹڈ حکومت کو تسلیم نہیں کروں گا، وزیراعظم عمران خان

اتوار کو بعد نماز عشاء بھرپور احتجاج کا اعلان

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مایوسی ہوئی تاہم عدلیہ کا جو بھی فیصلہ ہے قبول کرتے ہیں، یہ کیسی جمہوریت ہے کہ سیاستدانوں کی بولیاں لگ رہی ہیں، انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح بند کر رکھا ہے، فیصلہ کرنا ہے ہمیں کس طرح کا پاکستان چاہئے، ہم اینٹی امریکن نہیں، ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہونے والے نہیں، اپنے لوگوں کو کسی کی خاطر قربان نہیں کرسکتا، امپورٹڈ حکومت کو تسلیم نہیں کروں گا، میں اپنی قوم کے ساتھ خود نکلوں گا، نئی جدوجہد کیلئے تیار ہوگیا ہوں۔ انہوں نے اتوار (10 اپریل) کو بعد نماز عشاء عوام سے پرامن احتجاج کیلئے گھروں سے نکلنے کی اپیل کردی۔

وزیراعظم عمران خان نے قوم سے اہم ترین خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تقریباً 26 سال پہلے تحریک انصاف شروع کی، کبھی اپنے اصول تبدیل نہیں کئے، خود داری، انصاف اور فلاحی ریاست و انسانیت میرے بنیادی اصول تھے، سپریم کورٹ کے فیصلے سے مایوسی ہوئی، واضح کردوں کہ سپریم کورٹ اور عدلیہ کی عزت کرتا ہوں، ایک ہی بار آزاد عدلیہ کی تحریک کیلئے جیل گیا تھا، میرا ایمان ہے معاشروں کی بنیاد انصاف پر ہوتی ہے اور عدلیہ اس کی محافظ ہوتی ہے۔

وزیراعظم کا کہنا ہے کہ عدلیہ کا جو بھی فیصلہ ہے اسے قبول کرتے ہیں، ڈپٹی اسپیکر نے (آرٹیکل 5) تحریک عدم اعتماد میں بیرونی مداخلت پر فیصلہ دیا، بیرون ملک سے سازش کرکے حکومت کو گرانے کی کوشش کی گئی، یہ بہت سنجیدہ الزام تھا، میں چاہتا تھا اس کی تحقیقات ہوں، سپریم کورٹ اس مراسلے کو دیکھ لیتا کہ ہم جو کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے یا نہیں، اس پر سپریم کورٹ میں بات نہ ہونے پر مایوسی ہوئی۔

ان کا کہنا ہے کہ کھلے عام ہارس ٹریڈنگ ہورہی ہے، سیاستدانوں کے ضمیر خریدے جارہے ہیں، بھیڑ بکریوں کی طرح بند کرکے ان کی قیمتیں لگائی جارہی ہیں، سوشل میڈیا کا زمانہ ہے بچے بچے کو پتہ ہے کیا قیمتیں لگ رہی ہیں، یہ کونسی جمہوریت ہے، دنیا کی کس جمہوریت میں اس کی اجازت نہیں دی جاتی، عدلیہ سب سے بڑا انصاف کا فورم ہے ہم اس سے توقع رکھتے تھے کہ وہ اس پر سوموٹو ایکشن لے، کیونکہ اس سے پاکستان کی جمہوریت کا مذاق بن گیا، اس طرح تو بنانا ری پبلک میں بھی سیاستدان نہیں بکتے، یہ کوئی جمہوریت نہیں ہے۔

عمران خان نے کہا کہ نوجوان ہمارا مستقبل ہیں، جب وہ دیکھیں گے کہ سیاستدان رشوت لے کر خرید و فروخت کررہے ہیں، تو ان کیلئے کیا مثال قائم ہوگی، پاکستان کس طرف جارہا ہے، یہ سب کچھ پہلے بھی شریف برادران نے شروع کیا تھا، تب سے سیاست نیچے گئی ہے، یہ لوگ عوام سے ووٹ لے کر اسمبلی میں اپنا ضمیر بیچتے ہیں، مخصوص نشست والے بھی بک رہے ہیں، یہ سیٹ تو پارٹی کی طرف سے تحفہ ہوتی ہے۔

وزیراعظم کا کہنا ہے کہ میرا یقین ہے کہ پاکستان ایک عظیم ملک بننے گا، جدوجہد کو بڑا دھچکا لگتا ہے جب آپ یہ تماشہ دیکھ رہے ہوں، عدلیہ کا فیصلہ تسلیم کرلیا لیکن مایوس ہوں، امید کررہا تھا کہ عدلیہ اس کا بھی نوٹس لے گی، مغربی جمہوریت میں کبھی یہ چیز نہیں دیکھی، وہاں کبھی کوئی بکتا نہیں، ورنہ معاشرہ ان کیخلاف کھڑا ہوجاتا ہے۔

عمران خان کہتے ہیں کہ عراق کیخلاف جنگ تیل کیلئے تھی لیکن برطانوی عوام نے اس کی مخالفت کی، اپنی قوم کو کہتا ہوں کہ باہر سے سازش کرکے حکومت گرائی جارہی ہو تو آپ نے خود کو اور اپنے بچوں کے مستقبل کو بچانا ہے، بدی کیخلاف قوم کھڑی ہوتی ہے، کسی نے آپ کو نہیں بچانا۔

وزیراعظم نے بتایا کہ سفارتکار دوسروں ملکوں سے ہونیوالی گفتگو خفیہ کوڈڈ پیغام میں حکومت کو بھیجتے ہیں، یہ ٹاپ سیکرٹ ہوتے ہیں، خواہش کے باوجود انہیں میڈیا یا عوام کے سامنے نہیں لاسکتے، اتنا بتاسکتا ہوں کہ ایک امریکی آفیشل نے کہا کہ عمران خان کو روس نہیں جانا چاہئے تھا، پاکستان میں عدم اعتماد آنے سے قبل اس کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان عدم اعتماد سے بچ جاتا ہے تو پاکستان کو اس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے، پھر کہا اگر ہار جاتا ہے تو پاکستان کو معاف کردیا جائے گا، انہیں پتہ تھا کہ کس نے اچکن سلوائی ہوئی ہے۔

عمران خان نے مزید کہا کہ یہ 22 کروڑ عوام کی توہین ہے کہ ایک منتخب سربراہ کیلئے دھمکی آمیز باتیں کی جائیں، اگر ایسے ہی زندگی گزارنی ہے اور باہر سے حکم آنے ہیں تو کیوں 23 مارچ اور 14 اگست کو جشن مناتے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ میڈیا کو بھی شرم نہیں آئی کہ ایک پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے دوسری پارٹی میں جارہے ہیں لیکن انہیں سپورٹ کیا جارہا ہے، اس پر جشن منائے جارہے ہیں، ہمیں پتہ چلا کہ امریکی ڈپلومیٹس ہمارے اراکین سے مل رہے ہیں، عاطف خان اور شاندانہ نے بتایا کہ امریکی سفارتخانے میں بلا کر وزیراعظم خلاف عدم اعتماد آنے کا کہا گیا، یہ سب کچھ اسکرپٹ کے تحت چل رہا تھا، پورا پلان بنا ہوا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اپنی قوم سے کہنا چاہتا ہوں کہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ خوددار اور آزاد قوم بن کر رہنا چاہتے ہیں یا غلام، شہباز شریف نے کہا کہ بھکاریوں کو انتخاب کا حق نہیں ہوتا (بیگرز کانٹ بی چوزرز)، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سے پوچھیں کہ ان کی جماعتیں 30 سال سے حکومتوں میں تھیں، بتائیں پاکستان کو لائف مشین پر کس نے ڈالا؟، کیا یہ سب کچھ ساڑھے 3 سال میں ہوا ہے، کہتے ہیں قرضے چڑھے ہوئے ہیں اس لئے غلامی کرنا پڑے گی۔

ان کا کہنا ہے کہ امریکا کو ان کی یہ خاصیت پسند ہے کہ یہ اپنے پیسے کیلئے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہیں، 400 ڈرون حملے اس کی مثال ہیں جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، افغانستان میں ڈرون حملے میں ایک بے گناہ شخص کو بچوں سمیت مار دیا گیا، قبائلی علاقوں میں بھی مدارس اور شادیوں پر ڈرون حملے کئے گئے، پیسوں کے غلام ڈرے ہوئے تھے کہ اگر امریکا ناراض ہوگیا تو ہمارے اکاؤنٹس بھی ضبط نہ ہوجائیں، وہ ایسے ہی لوگوں کو واپس حکومت میں لانا چاہتے ہیں۔

وزیراعظم نے مزید کہا کہ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیسا پاکستان چاہئے، بھارت ہمارے ساتھ آزاد ہوا، کبھی کسی سپر پاور کی جرأت نہیں کہ ان سے اپنی مرضی کے تعلقات کی بات کرے، عمران خان کا بھی یہی مسئلہ ہے، میں کسی ملک کا اینٹی نہیں ہوں، اولین ترجیح میرے ملک کے 22 کروڑ لوگوں کا مفاد ہے اس کے بعد دنیا کی باقی چیزیں ماننے کو تیار ہوں، اپنے لوگوں کو کسی اور قوم کیلئے قربان نہیں کرسکتا، ہمارے صاحب اقتدار ڈالرز کیلئے جنگوں میں پھنسا دیتے ہیں، پیسے لے کر جنگ میں شرکت کرنے والوں کی عزت نہیں کی جاتی، روس سے جنگ کے بعد ہم پر پابندیاں لگادی گئی تھیں۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ جب تک اپنے لوگوں کے مفاد میں نہ ہو کوئی فارن پالیسی نہیں بنانی، لوگوں کو غربت سے نکالنے کی کوشش کرنی ہوگی، یہ اس وقت ہوگا جب کسی تنازع کا حصہ نہ بنیں، امن میں شریک ہوں جنگوں میں نہیں، کوئی بیسز مانگے تو منع کردیں، انہیں وہ لوگ پسند ہیں جو ہر بات مانیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ کا مستقبل اور ملک کی خود مختاری قوم کے ہاتھ میں ہے، جمہوریت کی حفاظت فوج یا باہر سے طاقت نہیں کرسکتی، قوم اپنی جمہوریت اور خودمختاری کی حفاظت کرتی ہے، خود مختاری پر حملے کیخلاف کھڑے نہیں ہوں گے تو ایسے لوگ آئیں گے جو اپنی کرسی بچانے کیلئے سپر پاورز سے ڈریں گے، قوم کو لیڈرشپ کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا، بتانا پڑیگا کہ ہم اپنے ملک کو آزاد، خود مختار اور اپنی قوم کے مفاد میں خارجہ پالیسی چاہتے ہیں۔

وزیراعظم نے واضح کیا کہ عمران خان اینٹی امریکن نہیں، ہم ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہونیوالی قوم نہیں، ایسے تعلقات چاہتے ہیں کہ آپ کا بھی فائدہ ہو اور ہمارا بھی، ون سائیڈڈ تعلق نہیں چاہتے، غیر ملکی سفیروں نے پاکستان میں پروٹوکول کیخلاف اسٹیٹمنٹ دیا کہ پاکستان کو روس کیخلاف بیان دینا چاہئے، کیا اُن کی جرأت ہے بھارت میں ایسا بیان دینے کی، میری اپنی قوم سے اپیل ہے کہ اپنی خودمختاری کا تحفظ آپ نے کرنا ہے۔

عمران خان کا کہنا ہے کہ نوجوانوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ امپورٹڈ حکومت کو تسلیم نہیں کروں گا، میں اپنی قوم کے ساتھ نکلوں گا، عوام کے اندر جاکر سیاست شروع کی، عوام لے کر آئی، آئندہ بھی عوام کے ساتھ آنا ہے، پاکستان میں اس کی کوئی مثال نہیں، تحریک عدم اعتماد پر اپنی حکومت ختم کردی اور وزارت عظمیٰ چھوڑ دی تاکہ الیکشن کروائے جائیں، لوگوں کو انتخابات کے ذریعے منتخب کریں یہ کونسا طریقہ ہے کہ بیرونی مدد اور پیسے سے لوگوں کو خرید کر وزیراعظم بن جائیں، یہ کونسی جمہوریت ہے، ایسے وزیراعظم کی کیا ساکھ ہوگی، وہ کیا پارلیمنٹ ہوگی جس میں ایک دوسرے کو چور کہنے والے ساتھ ہوں گے، ان لوگوں نے ایک دوسرے کیخلاف کرپشن کے کیسز بنائے، پہلے بھی این آر اور لے چکے اب این آر او ٹو لینا چاہتے ہیں۔

وزیراعظم کہتے ہیں کہ اپوزیشن کی سیاست کا مقصد عوام نہیں بلکہ اقتدار میں آنا ہے، انہوں نے نیب اور اپنے کرپشن کیسز ختم کرنے ہیں، حالات یہ ہیں کہ ان کے کیسز چل رہے ہیں اس لئے مجھے جلدی جلدی ہٹانا چاہتے تھے تاکہ کیسز سے نکل جائیں، یہ کبھی نیوٹرل امپائر کے ساتھ نہیں کھیلیں گے، انہیں ای وی ایم مشین سے بھی خوف ہے، پاکستان میں صاف و شفاف الیکشن کرانا خواہش ہے، یہ اسے بھی ختم کردیں گے، 90 لاکھ اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کا حق بھی ختم کردیں گے، ان کیلئے آئی ووٹنگ لے کر آئے تھے، اگر یہ واقعی جمہوری ہیں تو الیکشن کا اعلان کریں، اگر پاپولر ہیں تو دیکھتے ہیں کہ قوم کس کو ووٹ دیتی ہے۔

عمران خان نے کہا کہ مجھے جدوجہد کی عادت ہے، میں اس کیلئے تیار ہوں، میں نے پبلک میں نکلنا ہے، پوری قوم کو کہتا ہوں کی اتوار (10 اپریل) کو بعد نماز عشاء نکلیں اور زندہ قوم کی طرح پُرامن احتجاج کریں، اپنے مستقبل، خود مختاری، آزادی اور جمہوریت کی حفاظت کرنی ہے، امپورٹڈ ڈرامے کیخلاف احتجاج کرنا ہے، زندہ قوم اپنے حقوق کیلئے کھڑی ہوتی ہے، آپ نے غلامی قبول نہیں کرنی، آزاد قوم کی طرح کھڑے ہونا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ تاریخ کبھی کسی کو معاف نہیں کرتی، کس نے کیا کردار ادا کیا تاریخ یاد رکھتی ہے، سپریم کورٹ کے کونسے فیصلے اچھے اور نقصاندہ ہیں تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں سامنے آتے ہیں، پاکستان بنانے کیلئے قربانی اس لئے نہیں دی تھی کہ کوئی باہر سے آکر حکومت میں بیٹھ جائے، پاکستان اس لئے نہیں بنا تھا، میں خود آپ کے ساتھ جدوجہد کروں گا۔

سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے جمعرات کو قومی اسمبلی بحال کردی تھی، عدالت عظمیٰ نے وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کو بھی کام جاری رکھنے کا حکم دیا تھا جبکہ اسپیکر کو ہدایت کی تھی کہ ہفتہ کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائی جائے۔

وزیراعظم عمران خان کے خطاب سے قبل تلاوت قرآن پاک کی گئی جبکہ قومی ترانے کی دھن بجائی گئی۔ مکمل خطاب اس لنک پر دیکھیں۔

PM IMRAN KHAN

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div