فلاحی اداروں کا سیلزٹیکس استثنیٰ کے خاتمے پر اظہارتشویش

ٹیکس کی رقم سے مزید غریبوں کا علاج ممکن ہے

فلاحی اداروں نے سیلز ٹیکس استثنیٰ خاتمے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ زکوٰۃ اور عطیات سے چلائے جانے والے اداروں سے سیلز ٹیکس کے نام پر رقم وصول کرنا زیادتی ہے، اس کے نتیجے میں اسپتالوں کی ترسیلی لاگت 25 فیصد بڑھ جائے گی، ٹیکس کی رقم سے مزید غریب مریضوں کا علاج کیا جاسکتا ہے۔

فلاحی اداروں کے سربراہان نے حکومت سے فلاحی اسپتالوں کو جنرل سیلز ٹیکس سے استثنیٰ دینے کی اپیل کردی۔

انڈس اسپتال کے سربراہ ڈاکٹر عبدالباری خان نے سماء ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا یہ تو بڑا برا بہانہ ہے کہ اس کا غلط استعمال ہوا ہے، غلط استعمال کیوں ہوا ہے، حکومت کیا کر رہی تھی، حکومت کا کام ہے کہ وہ دیکھے کون صحیح ہے اور کون غلط ہے جو ادارے عوام کی فلاح کیلئے کام کر رہے ہیں انہیں استثنیٰ دینا چاہئے اور جس نے اس کا غلط استعمال کیا اسے اس سے فائدہ نہیں اٹھانے دینا چاہئے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے نتیجے میں اسپتالوں کی ترسیلی لاگت 25 فیصد بڑھ جائے گی، اگر آج ہمارے اسپتال کے 34 ارب روپے کے اخراجات ہیں تو اب وہ بڑھ کر 50 ارب ہوجائیں گے، ان پیسوں سے ہم مزید پروجیکٹس شروع کرسکتے ہیں، مزید غریب عوام کی مدد ہو سکتی ہے۔

ڈاکٹر عبدالباری خان نے کہا کہ ابھی ہمارے ایک ارب روپے کے جوائنٹس آرہے تھے اس پر صرف 10 کروڑ روپے تو ٹیکس لگ رہا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سب سے بات کر رہے ہیں، اپیل بھی کی ہے اور جب کوئی حل نہیں نکلے گا تو پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر قیصر سجاد نے سماء ڈیجیٹل کو بتایا کہ صرف فلاحی اسپتال ہی نہیں، فارما کمپنیوں اور نجی اسپتالوں پر جی ایس ٹی کے نتیجے میں براہ راست عوام متاثر ہوں گے، نجی اسپتال علاج کے نام پر عوام سے یہ رقم بٹوریں گے، فارما کمپنیاں دوائیں مہنگی کریں گی، پی ایم اے یہ سمجھتی ہے کہ حکومتوں کا کام عوام کو ریلیف دینا ہوتا ہے لیکن اس اقدام کے نتیجے میں سفید پوش لوگ علاج سے محروم ہونگے، سرکاری اسپتالوں کی جو صورتحال ہے ہر انسان وہاں نہیں جانا چاہتا اور نہ فلاحی اداروں کا رخ کرتا ہے۔

انہوں نے کہا پی ایم اے حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اسپتالوں اور فارما کمپنیوں کو جی ایس ٹی سے مستثنیٰ قرار دے۔

الخدمت کراچی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر راشد قریشی نے سماء ڈیجیٹل کو بتایا کہ وفاقی حکومت 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس اور صوبائی حکومت 3 فیصد جنرل سیلز ٹیکس آن سروسز کے نام پر ٹیکس وصول کرے گی، اس طرح یہ بیس فیصد اخراجات ہمارے لئے اضافی بوجھ ہوگا، یہ وہ رقم ہوگی جو ہم غریب مریضوں کے علاج پر خرچ کرسکتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں مختلف فلاحی اداروں کی امدادی سرگرمیوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہونگے، سب سے زیادہ اسپتالوں کے اخراجات میں اضافہ ہوگا اور صحت کی سہولیات متاثر ہوں۔

راشد قریشی نے مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت کم از کم فلاحی اداروں کو سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے کیونکہ وہ ملک بھر میں پاکستانیوں کو بغیر کسی مالی فائدے کے صحت کی سہولیات بہم پہنچا رہے ہیں اور حکومتی حصے کا کام کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ الخدمت فاؤنڈیشن نارتھ ناظم آباد میں ایک میڈیکل انسٹیٹیوٹ بنانے کا ارادہ رکھتی ہے، جس کیلئے مختلف اقسام کی جدید مشنری خرید رہے ہیں، وفاقی و صوبائی ٹیکسز کے نتیجے میں ان مشینوں کی لاگت کہیں زیادہ ہورہی ہے۔

وزارت خزانہ کے سابق ترجمان مزمل اسلم نے سماء ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے جب تک ٹیکس چھوٹ دے رکھی تھی اچھی بات تھی جس کا کچھ اداروں نے غلط استعمال بھی کیا، فارما سیوٹیکل کمپنیاں دواؤں کے خام مال کے نام پر کچھ دوسرے کیمیکلز بھی منگوا رہی تھیں جو کاسمیٹکس وغیرہ میں استعمال کئے جاتے ہیں اور ان کا دواؤں میں کہیں استعمال نہیں ہوتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح این جی اوز بھی بہت سی ایسی مشینری منگوا رہی تھیں جن کا ان فلاحی اداروں کے پاس کوئی استعمال نہیں تھا اور وہی آگے بیچ رہی تھیں، سب این جی اوز یا فلاحی ادارے ایسے نہیں اور یقیناً ایسے اچھے اداروں کیلئے اس فیصلے سے مشکل بھی ہوگی۔

مزمل اسلم کا کہنا تھا کہ ہم نے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا مگر اس سے قبل مختلف اشیاء کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ تھی جو اب ختم کردی گئی ہے۔

Sales Tax

Health Sector

Tabool ads will show in this div