امریکا نے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کو نسل کشی قرار دیدیا

امریکی ہولوکاسٹ میموریل میوزیم میں خطاب

امریکا نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کو نسل کشی قرار دے دیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے امریکی ہولوکاسٹ میموریل میوزیم میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و تشدد نسل کشی ہے۔ انہوں نے میانمار کی فوج کی جانب سے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے خلاف ظلم کی تحقیقات کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے۔ قبل ازیں اقوام متحدہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ میانمارکی فوج روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جنگی جرائم میں ملوث ہے۔

انٹونی بلنکن نے کہا کہ میانمار میں مسلمان اقلیت روہنگیا کے خلاف مظالم نسل کشی ہے۔ یوکرین سمیت دنیا بھر میں ہونے والے بدترین غیرانسانی واقعات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہولوکاسٹ سے اب تک یہ آٹھویں مرتبہ ہے کہ امریکا نے نسلی کشی کے واقعات میں ایک اور اضافہ کردیا ہے۔ ہم یوکرین کے لوگوں کے ساتھ ہیں اور ہمیں اس کے علاوہ دنیا کے دیگر خطوں میں مظالم کے شکار لوگوں کے ساتھ بھی کھڑا ہونا چاہیے۔

انٹونی بلینکن نے کہا کہ جیسا کہ ہم نے مستقبل میں احتساب کے لیے بنیاد رکھی ہے اسی طرح ہم اس وقت جاری فوجی مظالم روکنے اور میانمار کے عوام سے تعاون جاری رکھیں گے تاکہ ملک میں جمہوریت بحال ہوجائے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکا نے میانمار میں فروری 2021 میں فوجی حکومت کے قبضے کے بعد بھی کئی پابندیاں عائد کردی تھیں، جہاں حکومت کے خلاف احتجاج کے دوران سیکڑوں شہریوں کا قتل کیا گیا تھا۔ امریکا نے اس سے قبل چین میں ایغور اور بڑی پیمانے پر مسلمان اقلیت کے خلاف مظالم چین کو نسل کشی کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ جب کہ بوسنیا، روانڈا، عراق اور دارفر میں بھی واقعات کو نسل کشی قرار دے دیا تھا۔

پس منظر

اگست 2017 میں میانمار میں مسلمان اقلیت روہنگیا کے خلاف بدترین کارروائیاں کی گئی تھیں، جس کے بعد 7 لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان پڑوسی ملک بنگلہ دیش منتقل ہوگئے تھے جہاں ان کے لیے مہاجر کیمپ تشکیل دیے گئے ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والی بدترین کارروائیوں کا الزام میانمار کی سیکیورٹی فورسز پر عائد کیا جاتا رہا ہے۔

برمیز روہنگیا آرگنائزیشن

برمیز روہنگیا آرگنائزیشن برطانیہ کے صدر ٹون کھن نے کہا کہ ہمارے خلاف نسل کشی کو امریکا کی جانب سے جرم قرار دینا اہم موقع ہے اور یہ میانمار کی فوج کو ان کے جرائم پر انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا باعث ہوگا۔

سال 2019 میں مغربی افریقی ملک گیمبیا کی حکومت نے میانمار کے خلاف روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر اقوام متحدہ کی عدالت میں قانونی کارروائی کے لیے درخواست دائر کردی تھی۔ گیمبیا نے کہا تھا کہ یہ مقدمہ 57 ملکی اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی جانب سے میانمار کے خلاف عالمی عدالت میں لایا گیا ہے۔ قانونی درخواست میں کہا گیا تھا کہ میانمار نے اقوام متحدہ کے نسل کشی کنونشن 1948 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریاست رخائن میں مسلم اقلیت روہنگیا کے خلاف فوجی کارروائی کی۔

گیمبیا کے وزیر انصاف ابوبکر تمبادو نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ‘روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانمار کی جانب سے کی گئی نسلی کشی کے جرم کا احتساب کیا جانا چاہیے۔ ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے افریقی ملک کی اس درخواست پر اپنا موقف دیتے ہوئے کہا تھا کہ روہنگیا کے خلاف مبینہ جرائم پر یہ میانمار کے خلاف پہلی قانونی کارروائی ہے۔ ایچ آر ڈبلیو سے منسلک ماہر قانون پرام پریت سنگھ کا کہنا تھا کہ ‘میانمار میں جاری بدترین جرائم کو روکنے کے لیے عدالت عبوری طور پر فوری اقدامات کر سکتی ہے۔

واضح رہے کہ ہولوکاسٹ یعنی یورپ میں یہودیوں کی نسل کشی کے بعد یہ آٹھویں مرتبہ ہے کہ امریکا نے کسی جگہ نسل کشی کو تسلیم کیا ہے۔

USA

MUSLIMS

Tabool ads will show in this div