سندھ ہاؤس میں مقیم تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی سامنے آگئے
سندھ ہاؤس اسلام آباد میں مقیم پاکستان تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی سامنے آگئے۔
سماء سے خصوصی گفتگو میں سندھ ہاؤس ميں مقيم تحریک انصاف کے رکن اسمبلی راجا ریاض کا کہنا ہے کہ کسی نے پيسہ نہيں ديا،ہم نے ووٹ ضمير کے تحت دينا ہے۔
راجا رياض کا کہنا تھا کہ ہمارے ايم اين ايز پر تشدد ہوا اور تھانے لے گئے، پوری قوم کو پتہ ہے پوليس سے لاجز پر حملہ کرايا گيا۔انہوں نے کہا کہ سندھ ہاؤس میں ہیں تو کیا وہ پاکستان سےباہر ہے۔ رکن قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ حکومت تو بڑے رابطے کر رہی ہے لیکن اب وقت گزر گیا۔
تحریک انصاف کے دوسرے رکن اسمبلی نور عالم خان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے 20کروڑ والی بات پر افسوس ہوا، ميں 3برس سے کرپشن کيخلاف آواز اٹھا رہا ہوں، انہوں نے مزید کہا کہ جو پيسے ليکر ووٹ بيچتے ہيں وہ رسولﷺ کے امتی نہيں۔
نور عالم خان کا کہنا تھا کہ مجھے کرسی کی پروا نہیں ، عوامی نمائندہ ہوں ، تحریک انصاف میں سب کرپشن میں ملوث ہیں۔
ایم این اے باسط بخاری کا کہنا تھا کہ میں ميں نے وزارت نہيں مانگی، وفاقی وزراء ہم پر تہمت لگارہے ہیں، ایک منصوبہ شہر سلطان سے جلالپور پیروالا مانگا جبکہ نے ان سے کہا مظفر گڑھ تاہیڈ پنج روڈ منصوبہ دیں۔
باسط بخاری کا کہنا تھا کہ میں آزاد الیکشن لڑا اور منتخب ہوا،ان سے وزارت بھی نہیں مانگی۔ اختلافات ہوتے ہيں مگر اس کا یہ مطلب نہيں کہ وزراء تہمت لگاديں۔ انہوں نے کہا کہ کسی سے نہيں ڈرتا ، ہم نے پارٹی نہيں چھوڑی،30 سے زائد ايم اين ايز ہمارے ساتھ موجود ہيں۔
رکن اسمبلی تحریک انصاف نواب شیروسیر کا کہنا تھا کہ اپنی مرضی سے سندھ ہاؤس میں موجود ہیں، وزیراعظم اے ٹی ایم سے کافی فائدہ اٹھا چکے ہیں، ووٹ اپنے ضمیر کے مطابق دیں گے۔
ایم این اے ریاض مزاری کا کہنا تھا کہ مجھ پر کوئی دباؤ نہیں ہے،کسی نے آفر نہیں کی، مجھے کوئی نہیں ڈرا سکتا جبکہ رکن قومی اسمبلی رمیش کمار کا کہنا تھا کہ دھمکیوں یاپیسوں پرایم این ایز بکتے ہیں ؟، کل جو اقلیتی ایم این ایز وزیراعظم سے ملے ان میں سے بھی ایک دو یہاں موجود ہیں۔
رمیش کمار کا مزید کہنا تھا کہ میں کسی کو خرید تو سکتا ہوں مگر مجھے کوئی خريد نہيں سکتا،انہوں نے دعویٰ کیا کہ 3 وفاقی وزراء بھی ساتھ آچکے ہیں نام نہیں لے سکتا مگر وہ او آئی سی اجلاس کے بعد استعفیٰ دے کر آجائیں گے۔
سندھ ہاوس میں موجود تحریک انصاف کے خاتون رکن اسمبلی وجیہ قمر کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے 3 خواتین رکن اسمبلی یہاں موجود ہیں، ووٹ کافیصلہ اپنے ضمیرکے مطابق کروں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ يہاں کوئی ايسابندہ نہيں جس کو کوئی ذاتی مسئلہ ہو ہم حلقوں ميں شکل دکھانے کے قابل نہيں رہے۔
ناراض 33 اراکین اسمبلی کی رپورٹ وزیراعظم کو موصول
وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ اسپیکر اسد قیصر کو ان ضمیر فروشوں کو تاعمر نااہل قرار دینے کی کارروائی کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ یہ لوگ باضمیر ہوتے تو استعفیٰ دیتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 5لوگوں کو15سے 20کروڑ روپے ملے، خچروں اور گھوڑوں کی منڈیاں لگ گئیں، ایکشن کے ڈر سے لوٹے ظاہر ہونا شروع ہوگئے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن نے جاری بیان میں کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد اور ہارس ٹریڈنگ سے کوئی تعلق نہیں، تحریک عدم اعتماد کی کارروائی اسپیکر بطور پریذائيڈنگ افسر انجام دیتے ہیں۔ آرٹیکل 63 اے کے تحت نااہلی کا طریقہ آئین میں درج ہے۔
واضح رہے کہ 8 مارچ کو اپوزیشن ارکان نے اسپیکر آفس میں وزیراعظم کیخلاف تحریک جمع کرائی ہے۔ تحریک قومی اسمبلی کی کل رکنیت کی اکثریت سے منظور ہو جانے پر وزیر اعظم اپنے عہدے پر فائز نہیں رہ سکیں گے۔ اس وقت قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 172 ووٹ درکار ہیں۔
متحدہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے اتحادی جماعتوں کے ممبران اسمبلی کونشانے پر رکھے ہوئے ہیں۔ اگر اپوزیشن حکومتی اتحادیوں جماعتوں کے 10 ارکان لینے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو تحریک کامیاب ہو جائے گی۔
قومی اسمبلی میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کو اتحادیوں سمیت 178 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ ان اراکین میں پاکستان تحریک انصاف کے 155 اراکین، ایم کیو ایم کے 7، بی اے پی کے 5، مسلم لیگ ق کے بھی 5 اراکین، جی ڈی اے کے 3 اور عوامی مسلم لیگ کے ایک رکن حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔
دوسری جانب حزب اختلاف کے کل اراکین کی تعداد 162 ہے۔ ان میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے 84، پاکستان پیپلز پارٹی کے 57 اراکین، متحدہ مجلس عمل کے 15، بی این پی کے 4 جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کا ایک رکن شامل ہے۔ اس کے علاوہ 2 آزاد اراکین بھی اس اتحاد کا حصہ ہیں۔