نیشنل اسٹیڈیم پاکستانی کرکٹ ٹیم کا مضبوط قلعہ

پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین رواں سیریز کا دوسرا ٹیسٹ میچ ہفتہ 12 مارچ سے نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں شروع ہوگیا ہے ۔ اس میچ کیلئے کراچی کے شائقین میں زبردست جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ نیشنل اسٹیڈیم میں پاکستانی بولرز اور بیٹرز نے ہمیشہ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور حریف ٹیموں کو یہاں ان کے سامنے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ دوسرے ٹیسٹ میچ کیلئے 4 پچز تیارکی گئیں اور اس کا قوی امکان ہے کہ ٹیسٹ میچ سپورٹنگ وکٹ پر کھیلا جائے گا ۔ پاکستان کے خلاف اس گراؤنڈ پر آسٹریلوی ٹیم کو کبھی کامیابی نصیب نہیں ہوئی ۔ پاکستان نے 8 میں سے 5 ٹیسٹ میچ جیتے جبکہ باقی 3 ٹیسٹ ڈرا ہوئے۔ دونوں ملکوں کے میچزمیں اس وکٹ پر لیگ اسپنرز زیادہ کامیاب رہے ہیں۔
اس کا قوی امکان ہے کہ آسٹریلیا ناتھن لیون کے ساتھ اسپنر سوئپسن کو بھی ٹیم میں شامل کرے کیونکہ اس وکٹ پر آسٹریلوی اسپنرزکاریکارڈ اچھا ہے۔راول پنڈی کی ڈیڈ وکٹ پر آئی سی سی سمیت سابق ٹیسٹ کرکٹرز نے بھی زبردست تنقید کی جس کی وجہ سے یہ دکھائی دیتا ہے کہ نیشنل اسٹیڈیم کی وکٹ بہتر ہوگی اور پاکستان کی یہ کوشش ہوگی کہ وہ اس وکٹ پر آسٹریلیا کے خلاف اپنے ناقابل شکست ہونے کا ریکارڈ برقراررکھے اور مہمان ٹیم بھی یہاں فتح کیلئے بھرپور کوشش کرے گی۔ دونوں ٹیمیں جیت کے جذبے اور بھرپور تیاری کے ساتھ میدان میں اتریں گی۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کیلئے نیشنل اسٹیڈیم خوش قسمتی کا باعث رہا ہے جہاں میزبان ٹیم کو تمام حریفوں پر بالادستی حاصل رہی ۔ اس اسٹیڈیم میں کھیلے جانے والے 43 ٹیسٹ میچز میں سے 23 میں پاکستان کو کامیابی نصیب ہوئی اور 1950 سے 2000 تک کوئی بھی کرکٹ ٹیم پاکستان کو نیشنل اسٹیڈیم میں زیر نہیں کر پائی تھی ۔ پاکستان کو یہاں صرف 2 ٹیسٹ میچوں میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے ۔ پاکستان کو پہلی شکست 2000 میں ناصر حسین کی زیر قیادت انگلش ٹیم کے ہاتھوں اور دوسری شکست جنوبی افریقہ کے ہاتھوں ہوئی تھی ۔ 18 ٹیسٹ میچ ڈرا ہوئے جبکہ نیوزی لینڈ ‘ بھارت اور بنگلہ دیش کے خلاف مختلف وجوہ کی بنا پر ایک ایک ٹیسٹ منسوخ ہوا تھا ۔ نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں پہلا ٹیسٹ میچ مئی 1955 میں پاکستان اور بھارت کے مابین کھیلا گیا تھا جو ڈرا ہو گیا تھا۔ اس میچ کی دوسری اننگز میں پاکستان کے علیم الدین نے 103 رنز ناٹ آؤٹ کی شاندار اننگز کھیلی تھی۔ کپتان عبدالحیفظ کاردار نروس نائٹیزکا شکار ہوئے تھے جو 93 رنز پر آؤٹ ہوئے ۔ اس گراؤنڈ پر آخری ٹیسٹ جنوری 2021 میں پاکستان اور جنوبی افریقہ کے مابین ہوا تھا جس میں پاکستان 7 وکٹوں سے فتحیاب رہا تھا۔ پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین ٹیسٹ کرکٹ کا آغاز کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم سے ہی ہوا تھا جب 1956-57 میں آسٹریلین کرکٹ ٹیم اولین ٹیسٹ سیریز کیلئے پاکستان کے دورے پرآئی تھی ۔ پاکستان نے یہ ٹیسٹ میچ غیر متوقع طور پر9 وکٹوں سے جیت کر آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ کرکٹ کا فاتحانہ آغاز کیا تھا۔
آسٹریلیا کے کپتان آل راؤنڈر ایان جانسن اور پاکستانی قائد عبدالحفیظ کاردار تھے۔اس سیریز میں صرف ایک ٹیسٹ میچ کھیلاگیاتھا۔پاکستان نے نیشنل اسٹیڈیم میں کھیلاجانے والا واحد ٹیسٹ 9 وکٹوں سے جیت لیا تھا۔میٹنگ وکٹ پر پاکستان کے فاسٹ بولر فضل محمود نے تباہ کن بولنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے آسٹریلوی بیٹگ لائن کو تہس نہس کردیاتھا۔ پاکستان کے مقابلے میں آسٹریلوی ٹیم کافی مضبوط تھی جس میں نیل ہاروے ‘ رچی بینو ‘ ایلن ڈیوڈسن ‘ کولن میکڈونلڈ ‘ کیتھ ملراور رے لنڈوال جیسے شہرہ آفاق کھلاڑی شامل تھے۔ آسٹریلوی ٹیم پہلی اننگز میں فضل محمود کی تباہ کن بولنگ کے سامنے خزاں رسیدہ پتوں کی مانند صرف 80 رنز پر ڈھیر ہوگئی تھی جو تاحال اس گراؤنڈ پر کسی بھی ٹیم کا اننگز میں کم ترین اسکور ہے ۔ صرف چار کھلاڑی دہرے ہندسے میں داخل ہو پائے تھے۔ کیتھ ملر 21 ‘ کولن میکڈونلڈ 17 ‘ ایان جانسن 13 اور رون آرچر نے 10 رنز بنائے تھے ۔ پاکستان اٹیک بولرز فضل محمود اور خان محمد نے پہلی اننگز میں مسلسل 54 اوورز کروائے تھے ۔ اننگز میں کسی تیسرے بولر نے گیند نہیں کی ۔ فضل محمود نے 27 اوورز میں 31 رنزدے کر 6 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی تھی ۔خان محمد نے 4 کھلاڑی آؤٹ کیے۔
جواب میں پاکستانی اننگز کا آغاز بھی اچھا نہیں تھا ۔ اوپنر حنیف محمد بغیر کوئی رن بنائے کیتھ ملر کا نشانہ بنے تھے۔ 35 رنز پرچار کھلاڑی آؤٹ تھے۔ اس نازک مرحلے پر وزیر محمد اور عبدالحفیظ کاردار نے چھٹی وکٹ کی شراکت میں قیمتی 104 رنز بنا کر ٹیم کی پوزیشن کو مستحکم کیا ۔ کاردار نے 69 اور وزیر محمد 67 رنزکی شاندار اننگز کھیلی ۔ محمد برادران میں بڑے بھائی وزیر محمد کا حال ہی میں کراچی میں انتقال ہوا ہے۔ پاکستانی ٹیم 199 رنز پر آؤٹ ہوگئی تھی ۔ آسٹریلیا کے ایان جانسن نے چار وکٹیں لی تھیں ۔
پاکستان کو پہلی اننگزمیں مہمان ٹیم پر 119 رنز کی برتری حاصل تھی ۔ آسٹریلیا کی دوسری اننگز کا آغاز بھی پہلی اننگزسے کچھ مختلف نہیں تھا ۔ فضل محمود بلے بازوں پر قہربن کر ٹوٹ پڑے تھے۔انہوں نے ابتدائی 5 کھلاڑیوں کو 47 رنز پر پویلین پہنچادیاتھا۔ آسٹریلیا کی اننگز شکست یقینی دکھائی دے رہی تھی۔ اس موقع پر رون آرچر‘ رچی بینو اورایلن ڈیوڈسن نے کچھ مزاحمت کی اور ٹیم کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دیا۔ رچی بینو نے 57، ایلن ڈیوڈ سن 37 اور آرچر نے 27 رنزبنا کر اسکور 187 رنز تک پہنچایا اور پاکستان کو جیت کیلئے 69 رنزکا ہدف دیا ۔ فضل محمود نے 80 رنز دے کر 7 اور خان محمد نے 3 کھلاڑی آؤٹ کیے ۔ پاکستان نے مطلوبہ ہدف ایک وکٹ کے نقصان پر پورا کر کے ٹیسٹ میچ اور سیریز جیت لی۔ پاکستان کے گل محمد 27 اور علیم الدین 34 رنز پر ناقابل شکست رہے۔ حنیف محمد صرف پانچ رنز بنا سکے۔ فضل محمود نے 114 رنزدے کر 13 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور میچ کے ہیرو قرار پائے جو اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی دونوں ٹیموں کی جانب سے ٹیسٹ میچ میں کسی بولر کی بہترین بولنگ کارکردگی ہے۔ اس اولین ٹیسٹ میں آسٹریلیا کی نمائندگی کرنے والے نیل ہاروے واحد کھلاڑی ہیں جو ابھی حیات ہیں ۔
آسٹریلوی ٹیم 1959 میں تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز رچی بینو کی قیادت میں پاکستان آئی تھی تو پاکستان کے قائد فضل محمود تھے۔ اس سیریز کا تیسرا ٹیسٹ میچ کراچی میں کھیلا گیا تھا جو بے نتیجہ رہا تھا۔ میچ میں سعید احمد نروس نائنٹیزکا شکارہوئے تھے جبکہ فضل محمود اوررچی بینو نے اننگز میں پانچ پانچ کھلاڑی آئوٹ کیے تھے۔ اس ٹیسٹ میں پاکستان کے انتخاب عالم اور نیرملک نے ڈیبیوکیا تھا۔ انتخاب عالم نے اپنی پہلی ٹیسٹ گیند پر ٹیسٹ وکٹ حاصل کی تھی۔ انہوں نے اوپنر کولن میکڈونلڈ کو پہلی گیند پر کلین بولڈ کیا تھا۔ ٹیسٹ کے چوتھے روز امریکی صدر آئزن ہاور کھیل دیکھنے کیلئے آئے تھے اور وہ ٹیسٹ کرکٹ دیکھنے والے پہلی امریکی صدر تھے۔ پہلی اننگزمیں حنیف محمد‘ اعجاز بٹ جبکہ آسٹریلیا کے نیل ہاروے نے نصف سچریاں بنائی تھیں جبکہ حنیف محمد نے دوسری اننگز میں چوتھے نمبر پربیٹنگ کرتے ہوئے 101 ناٹ آؤٹ بنائے تھے۔
اکتوبر 1964 میں ایک ٹیسٹ میچ پر مشتمل سیریز میں پاکستان کے کپتان حنیف محمد اور آسٹریلیا کے قائد باب سمپسن تھے۔ کراچی میں کھیلے جانے والے اس ٹیسٹ میں پاکستان کے چھ کھلاڑیوں عبدالقادر( اوپنر ) ‘ آصف اقبال خالد ( بلی ) عباد اللہ‘ ماجد خان‘ پرویزسجاد اور شفقت رانا نےٹیسٹ ڈیبیو کیا تھا ۔ پاکستانی اوپننگ جوڑی بلی عباداللہ اور عبدالقدیر نے شاندار 249 رنز کی ریکارڈ اوپپنگ شراکت کی تھی ان کے اس ریکارڈ کو گزشتہ ہفتے راولپنڈی ٹیسٹ میں امام الحق اور عبداللہ شفیق نے دوسری اننگز میں ناقابل شکست بنا کر توڑا ۔ خالد عباد اللہ نے ڈیبیو میں 166 رنز بنائے ۔ عبدالقدیر 95 رنز پر آؤٹ ہوئے تھے۔انتخاب عالم نے 51 رنز کی اننگز کھیلی تھی۔آسٹریلیا کے گراہم میکنزی نے 6کھلاڑی آؤٹ کیے تھے ۔ پاکستان کے 414 رنزکے جواب میں مہمان ٹیم نے کپتان باب سمپسن کی 153 اور باب برج کی 54 رنز کی بدولت 352 رنزبنائے۔ پاکستان کی جانب سے ماجد خان اورآصف اقبال نے بولنگ اوپن کی تھی ۔ ماجد خان‘ آصف اور پرویز سجاد نے اپنی پہلی ٹیسٹ وکٹیں حاصل کیی تھیں ۔ پاکستان نے دوسری اننگز 279 رنر آٹھ پر ڈیکلیئر کر دی اور آسٹریلیا کو جیتنے کیلئے 342 کا ٹارگٹ دیا تھا لیکن آسٹریلوی ٹیم دووکٹوں پر 227 رنز بنا سکی آسٹریلوی کپتان سمپسن نے دوسری اننگزمیں 115 رنز بنائے اور ٹیسٹ کی دونوں اننگزمیں سنچریاں بنانے کا کارنام انجام دیا ۔
اس کے 16 سال بعد 1980 میں آسٹریلوی ٹیم گریگ چیپل کی قیادت میں تین ٹیسٹ میچز کی سیریز کیلئے پاکستان آئی تو پاکستان کے قائد جاوید میانداد تھے۔ سیریز1-1 سے برابر رہی۔ پاکستان نے نیشنل اسٹیڈیم میں ٹیسٹ سات وکٹوں سے جیتا۔ اس لو اسکورنگ میچ میں دونوں ٹیموں کی اسپنرز نے شاندار کارکردگی دکھائی ۔ اس ٹیسٹ میں آف اسپنر توصیف احمد نے ڈیبیو کیا تھا اور ان کی ٹیم میں شمولیت حیران کن تھی کیونکہ وہ نیٹ پریکٹس میں بولنگ کیلئے شاہ فیصل کالونی سے نیشنل اسٹیڈیم آتے تھے ۔ اس وقت پاکستانی ٹیم مینجرمشتاق محمد ان کی بولنگ سے کافی متاثر ہوئے اور ان کو ٹیم میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا جو انتہائی حیران کن تھا۔ پہلی اننگز میں توصیف احمد اور اقبال قاسم نے آسٹریلوی ٹیم کو 225 پر گھر بھیج دیا تھا ۔ کم ہیوز نے 85 رنزکی اننگز کھیلی ۔ لیکن جواب میں رے برائٹ اور گریگ چیپل نے بھی پاکستانی بلے بازوں کو کھل کو نہیں کھیلنے دیا جس کی وجہ سے پاکستان کو معمولی برتری ملی تھی ۔ ماجد خان نے 89 تسلیم عارف 58 جاوید 40 رنزکی بدولت 292 رنزبنائے تھے ۔ رے برائٹ نے 87 رنر دے کر سات اور چیپل نے تین کھلاڑی آؤٹ کیے تھے۔
دوسری اننگز میں اقبال قاسم نے آسٹریلیا کی مضبوط بیٹنگ لائن کو اپنی لیگ اسپن سے تباہ کردیا۔ پوری ٹیم صرف 140 رنز پر پویلین لوٹ گئی ۔ مہمان ٹیم کے سات کھلاڑی ڈبل فیگرمیں نہیں جا سکی تھے ۔ ایلن بارڈر نے 58 اوربروس لیرڈ نے 23 رنز بنائے۔ اقبال قاسم نے 49 رنز دے کر سات اور توصیف نے 32 رنز پر تین کھلاڑی آئوٹ کیے تھے۔ پاکستان کو جیت کیلئے 74 رنزکا ٹارگٹ ملا جو اس نے تین وکٹوں پر حاصل کر لیا۔ تینوں وکٹیں رے برائٹ کے حصے میں آئیں ۔ آسٹریلیا کا کوئی بھی فاسٹ بولر وکٹ نہ لے سکا جبکہ عمران خان کو دو وکٹیں ملی تھیں ۔ وپہلی اننگز میں توصیف احمد بیٹنگ جا رہے تھے تو ان ان پر پھول نچھاور کیے گئے تھے لیکن انہیں آسٹریلوی اسپنر رے برائٹ نے پہلی گیند پر کلین بولڈ کر دیا تھا۔
آسٹریلوی ٹیم 1982 میں کم ہیوزکی قیادت میں پاکستان آئی تھی تو پہلا ٹیسٹ میچ نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں کھیلا گیا تھا جس میں پاکستانی بولرز نے مہمان ٹیم کے بلے بازوں کو حاوی نہیں ہونے دیا تھا ۔ عمران خان کی زیر قیادت میزبان ٹیم میچ 9 وکٹوں سے جیت گئی تھی۔ آسٹریلیا پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 284 رنز پر آئوٹ ہو گیا تھا ۔ جس میں کم ہیوز 54 اور ایلن بارڈر 55 رنز کے ساتھ نمایاں تھے ۔ طاہر نقاش نے چار عبدالقادر اور اقبال قاسم نے دو دو کھلاڑی آئوٹ کیے تھے۔ پاکستان نے پہلی اننگز 9 وکٹوں پر 419 رنز بنا کر ڈیکلیئر کی تھی۔ ظہیر عباس 91 نروس نائنٹیزکا شکار ہو گئے تھے۔ ہارون رشید 82 ‘ محسن حسن خان 58 اور مدثر نذز 52 رنز کے ساتھ نمایاں رہے۔ پاکستان کو پہلی اننگز میں 135 رنز کی برتری حاصل تھی ۔ آسٹریلوی بلے باز دوسری اننگز میں عبدالقادر کی لیگ اسپن اور گگلی گیندوں کے سامنے زیادہ نہ ٹھہر پائے۔ راڈنی مارش اور رے برائٹ 32‘32 رنز کے ساتھ ٹاپ اسکورر تھے پوری ٹیم 179 رنز پر ڈھیر ہو گئی ایک مرحلے پر 73 پر سات کھلاڑی آئوٹ تھے لیکن مارش رے برائٹ اور لاسن اور تھامسن نے اننگز شکست سے بچانے میں کردار ادا کیا ۔ عبدالفاد نے پانچ ‘اقبال قاسم اور عمران نے دو دو کھلاڑی آئوٹ کیے پاکستان کو 45 رنزکا ہدف ملا جو اس نے ایک وکٹ کے نقصان پر پورا کر لیا ۔
آسٹریلوی ٹیم 1988 میں ایلن بارڈر کی قیادت میں پاکستان آئی تو کراچی میں پہلا ٹیسٹ کھیلا گیا جس میں اسپن بولرز چھائے رہے ۔ آسٹریلوی کھلاڑی اقبال قاسم عبدالقادر اور توصیف احمد کی گھومتی ہوئی گیندوں پر اپنی وکٹیں گنوا بیٹھے۔ پاکستانی کپتان جاوید میانداد نے 211 رنز کی فاتحانہ اننگز کھیلی جس نے ٹیم کو ایک اننگز 188 رنز سے کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ پاکستنان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 9 وکٹوں پر 469 رنز بنا کر ڈیکلیئر کر دی تھی ۔ شعیب محمد 94 رنز نروس نائٹیزکا شکار ہوئے۔ سلیم ملک نے 46 رنز کی اننگز کھیلی ۔ آسٹریلوی اسپنر ٹم مے نے چار اور فاسٹ بولر بروس ریڈ نے بھی چار شکارکیے ۔
جواب میں آسٹریلوی ٹیم پہلی اننگز میں 165 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ اقبال قاسم نے پانچ عبدالقادر نے دو اور توصیف نےایک وکٹ لی۔ فالو آن کے بعد دوسری اننگزمیں بھی پاکستانی اسپنرزکا سحر جاری رہا اور ٹیم صرف 116 پر آئوٹ ہو گئی۔ اقبال قاسم نے چار‘ عبدالقادر نے تین اور توصیف دو کھلاڑی آئوٹ کیے تھے۔
آسٹریلوی کرکٹ ٹیم 1994 میں تین ٹیسٹ کی سیریز کیلئے مارک ٹیلر کی قیادت میں پاکستان آئی تھی تو اسے کراچی میں سیریز کا پہلا ٹیسٹ میچ جیتنے کا سنہری موقع ملا تھا لیکن میزبان ٹیم کے اس مضبوط قلعے میں قسمت نے پاکستان کا ساتھ دیا اورپاکستان نے بمشکل یہ میچ بائی کے ایک چوکے کی وجہ سے ایک وکٹ سے جیت لیا اگر شین وارن کی گھومتی ہوئی گیند ایان ہیلی کے ہاتھوں میں آجاتی تو آسٹریلیا یہ میچ جیت جاتا کیونکہ زوردار شاٹ کھیلنے کی کوشش میں انضمام الحق کریز سے کافی باہر نکل گئے تھے اور اس گراؤنڈ پر پاکستان کی کسی بھی ٹیم کے ہاتھوں یہ پہلی شکست ہوتی۔ اس میچ میں مائیکل بیون نے ڈیبیو کیا تھا۔ آسٹریلیا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے بیون 82 اسٹیو وا 73 ہیلی 57 سلیٹر 36 نز کی مدد سے 337 رنز بنائے تھے پاکستان کے وسیم اکرم وفار اورمشتاق احمد نے تین تین کٹیں لی تھیں۔ جواب میں 90 رنز کی اچھی اوپننگ شراکت کے باوجود پاکستانی ٹیم کی بساط 256 رنز پر لپٹ گئی۔ عامر سہیل 85 وسیم اکرم 39 سعید انور 36 اورکپتان سلیم ملک 26 رنزنمایاں رہے۔آسٹریلیا کے شین وارن اور جواینجل نے تین تین میگرا اور ٹم مے نے دو دو کھلاڑی آؤٹ کیے۔ مہمان ٹیمکو پہلی اننگز میں 81 رنزکی برتری حاصل تھی لیکن دوسری اننگز میں وسیم اکرم اوروقار ینس کی جوڑی نے آسٹریلوی بیٹنگلائن کو جم کر کھیلنے نہیں دیا اور ٹیم کو 232 رنزپر ڈھیر کر دیا۔ مہمان ٹیم کے آٹھ کھلاڑی دہرے ہندسے میں داخل نہیں ہو سکے تھے۔ ڈیوڈ بون نے 114 مارک وا 61 مائیکل سلیٹر 23 رنزبنا پائے اضافی 16 رنز اننگز کا چوتھا بڑا اسکور تھا۔ وسیم کو پانچ اوروقار کو چار وکٹیں ملیں۔
پاکستان کو جیتنے کیلئے 314 رنزکا ٹارگٹ ملا تھا۔سعید انور اور عامر سہیل نے پاکستان کومضبوط ینیاد فراہم کی لیکن عامر سہیل کے رن آؤٹ ہونے کے بعد شین وارن اور جوایجل نے میزبان ٹیم کیلئے مشکلات پیدا کر دی تھیں۔وقفے وقفے سے پاکستانی وکٹیں کرتی رہیں۔ 184 رنز پر سات کھلاڑی پویلین لوٹ گئے تھے اور پاکستان پر شکست کے بادل منڈلا رہے تھے۔ سلیم ملک 43 سعید انور 77عامر سہیل 34 رنز بنا پائے تھے۔ اس مرحلے پر انضمام الحق نے استقامت کا مظاہرہ کیا اور آٹھویں وکٹ کی شراکت میں راشد لطیف کے ساتھ قیمتی 52 رنزکا اضافہ کیا۔ شین وارن کو کھیلنا مشکل تر ہوگیا تھا روشنی بھی کم ہورہی تھی۔ اس کے بعد وقار یونس نے انضمام کا ساتھ دیا اوراسکور 258 تک پہنچایا۔ وفار شین وارن کا شکارہوگئے۔ پاکستان کو میچ جیتنے کیلئے 56 رنز جبکہ آسٹریلیا کو صرف ایک وکٹ کی ضرورت تھی۔ اس نازک مرحلے پر مشتاق احمد نے انضمام الحق کے ساتھ مل کر آسٹریلوی بولر کا جم کر مقابلہ کیا اور اسکور بتدریج بڑھاتے رہے۔پاکستان کو تین رنز درکار تھے۔ انضمام الحق شین وارن کا سامنا کررہے تھے۔ انہوں نے شین وارن کی ایک گیند کو کریز سے باہر نکل کر باؤنڈری سے باہرپھنیکنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام ہوئے اورگھومتی وہوئی گیندتیزی کے ساتھ باؤنڈری کراس کر گئی اور پاکستان اس چوکے کی وجہ سے سنسنی خیز مقابلے کے بعد میچ جیت گیا۔ اگر یہ گیند ایان ہیلی کے ہاتھ میں آجاتی تو انضمام الحق یقینی اسٹمپڈ آؤٹ تھے لیکن انضمام کی بھاری بھرکم جسامت کی وجہ سے ہیلی گیند کو نہیں دیکھ پائے تھے۔ اس میچ میں چند روز قبل تھائی لینڈ میں انتقال کر جانے والے آسٹریلیا کے لیجنڈری لیگ اسپنر شین وارن نے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا اور انہوں نے آسٹریلیا کو فتح کے قریب پہنچا دیا تھا۔
آسٹریلوی کرکٹ ٹیم مارک ٹیلر کی قیادت میں تین ٹیسٹ کی سیریزکیلئے پاکستان کے دورے پر 1998 میں آئی تھی۔ یہ سیریز آسٹریلیا نے ایک صفر سے جیت لی تھی کراچی میں کھیلے جانے والے دوسرے ٹیسٹ میچ میں پاکستان کے شاہد آفریدی اورشکیل احمد نے ڈیبیو کا تھا یہ میچ ڈراہو گیا تھا۔ پاکستان کے کپتان عامر سہیل تھے شاہد آفریدی نے اپنے ڈیبیو میں بہترین بولنگ کرتے ہوئے پہلی اننگز میں پانچ جبکہ شکیل نے دوسری اننگز میں چار کھلاڑی ّؤٹ کیے تھے۔ آسٹریلیا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے سلیٹر 94 ایان ہیلی 47 کی مدد سے پہلی اننگز میں 280 رنز بنائے جواب میں پاکستان252 پر آؤٹ ہو گیا تھا۔ عامر سہیل نے 133 وسیم اکرم 35 معین خان20 شاہد آفریدی 10 رنزبنا سکے۔ میگرا نے پانچ اور میکگل نے تین کھلاڑی آؤٹ کیے۔ دوسری اننگز میں آسٹریلیا مارک وا117 مارک ٹیلر 68گیون رابرٹسن 47 جسٹن لینگر51 رنز کی بدولت 390 رنز بنا کر پاکستان کو 419 رنز کا مشکل بلکہ ناممکن ٹارگٹ دیا تھا پاکستان کے شکیل خان نے چار اور ارشد خان نے دوکھلاڑی آؤٹ کیے۔ دوسری اننگز میں ملر نے تباہی پھیلادی تھی۔ 35 رنز پرمحمد یوسف سلیم ملک اور شاہد آفریدی پویلین لوٹ گئے تھے۔ لیکن اس نازک مرحلے پرعامرسہیل نے اعجاز احمد کے ساتھ چوتھی وکٹ کی شراکت میں اسکور75 تک پہنچایا ا ور عامر ملر کا شکار ہو گئے۔ اعجاز اور معین نے پانچویں وکٹ کی شراکت میں 153 رنز بنائے۔ معین لہیمن کا نشانہ بنے جس کے بعد انضمام اور اعجازنے ٹیم کوسنبھالا اور سکور262 تک پہنچایا۔ اعجاز120 اور انضام 21 پر ناٹ آؤٹ تھے۔
نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں پاکستان کو پہلی بار 2000 میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ جب دسمبر 2000 میں انگلش کرکٹ ٹیم نے ناصر حسین کی قیادت میں پاکستانی ٹیم کو چھ وکٹوں سے زیر کیا تھا ۔ انگلینڈ کے خلاف اس ٹیسٹ میچ کی پہلی اننگز میں پاکستان نے انضمام الحق 142 اورمحمد یوسف 117رنزکی بدولت 405 رنزبنائے تھے ۔ دونوں نے چوتھی وکٹ کی شراکت میں 269 قیمتی رنز جوڑے تھے۔ ان کے علاوہ کوئی اور کھلاڑی جم کو انگلش بولرز کو نہیں کھیل سکا تھا۔ ایشلے جائلز نے چار اور ڈیرن گف نے تین وکٹیں لی تھیں ۔ جواب میں انگلش ٹیم مائیک ایتھرٹن 135 اور ناصر حسین 51 رنز کی مدد سے 388 پر ڈھیرہو گئی تھی۔ وقار یونس نے چار ‘ تقلین مشتاق اور دانش کنریا کے دو دو کھلاڑی آوٹ کیے۔ پاکستان کو پہلی اننگز میں 17 رنز کی سبقت حاصل تھی لیکن دوسری اننگز میں پاکستانی بلے باز انگلش بولرز کے سامنے مزاحمت نہیں کر پائے تھے اور پوری ٹیم 158 رنز کے معمولی اسکور پر پویلین لوٹ گئی ۔ سلیم الہیٰ 37 رنزکے ساتھ ٹاپ اسکورر تھے ۔ گف اور جائلز نے تین تین اور گریگ وائٹ نے دو بلے بازوں کو پویلین کی راہ دکھائی تھی ۔ انگلینڈ نے مطلوبہ ہدف چار وکٹوں کے نقصان پر پورا کر کے اس گرائونڈ پر پاکستان کے 34 میچوں میں ناقابل شکست رہنے کے ریکارڈ کو چکنا چور کر دیا تھا ۔اس فتح کے ساتھ انگلینڈ تین ٹیسٹ میچز کی سیریز 1-0 سے جیت گیا تھا ۔ انگلش بلے بازوں نے فتح کیلئے کم روشنی میں بھی بیٹنگ کی اور اپنی کامیابی کو ممکن بنایا ۔ خراب روشنی کی وجہ سے اسٹیڈیم میں مصنوعی لائٹس روشن کی گئی تھیں ۔ پاکستانی ٹیم کے کپتان معین خان نے امپائر اسٹیو بکنر سے متعدد بار کہا تھا کہ خراب روشنی کی وجہ سے قیلڈرز کو گیند نظر نہیں آ رہی ہے اس لیے وہ کھیل ختم کردیں مگر جیت کے جذبے سے شرسار انگلش بلے بازوں گراہم تھارپ اور گریم ہک نے کھیل کوجاری رکھنے پر اکتفا کیا تھا۔ تھارپ اور ہک نے چوتھی وکٹ کی شراکت میں 91 رنزجوڑ کر اس کامیابی میں مرکزی کرادا اداکیا تھا۔ انگلش ٹیم پاکستان کے خلاف 39 سال بعد پاکستانی سرزمین پر ٹیسٹ سیریز جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی ۔ 1961 میں ٹیڈ ڈیکسٹر کی زیرقیادت انگلش ٹیم نے آخری بار پاکستان میں ٹیسٹ سیریز 1-0 سے جیتی تھی ۔ اس وقت پاکستانی ٹیم کے قائد وکٹ کیپر امتیاز احمد تھے۔
پاکستان کو نیشنل اسٹیڈیم میں دوسری شکست گریم اسمتھ کی زیر قیادت جنوبی افریقہ کے ہاتھوں 160 رنز سے ہوئی تھی اس میچ میں جیک کیلس نے دونوں اننگز میں سنچریاں بنانے کا کارنامہ انجام دیا تھا جبکہ پاکستان کے ٹیسٹ ڈیبیو کرنے والے لیگ اسپنر عبدالرحمن نے دونوں اننگز میں شان دار کارکردگی پیش کرتے ہوئے آٹھ کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا تھا ۔ پاکستان کی جانب سے دوسری اننگزمیں یونس خان 126 رنز نے حریف بولرز کے خلاف مزاحمت کی لیکن کوئی اور کھلاڑی وکٹ پر ان کے ساتھ جم کر نہیں کھیل پایا تھا۔ کپتان شعیب ملک 30 فیصل اقبال‘ 44 رنز بنا پائے تھے۔
اس گرائونڈ پر 43 ٹیسٹ میچز کھیلے گئے جن میں سے پاکستان نے 23 میں کامیابی حاصل کی جبکہ دو میں شکست ہوئی۔ پاکستان کے یونس خان نے 2008-9 میں اس گراؤنڈ پر سری لنکا کے خلاف 313 رنز سب سے بڑی انفرادی اننگز کھیلی ۔ جبکہ پاکستان کے سابق کپتان اور موجودہ وزیراعظم عمران خان کو نشینل اسٹیڈیم میں ایک اننگز میں بہترین بولنگ کا اعزاز حاصل ہے انہوں نے 1982-83میں بھارت کے خلاف ٹیسٹ میں 60 رنز دیکر 8 کھلاڑی آئوٹ کیے تھے۔ اننگز میں سب سے کم 80 رنز کا ریکارڈ آسٹریلیا کے نام سے جڑا ہےجس نے یہ اسکور پاکستان کے خلاف اپنے اولین ٹیسٹ میں بنایا تھا ۔ اسی ٹیسٹ میں فضل محمود نے 13 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا تھا جو آج بھی میچ میں بہترین بولنگ کا ریکارڈ ہے ۔
نیشنل اسٹیڈیم میں پاکستان نے بنگلہ دیش کے خلاف ایک ٹیسٹ میچ جیتا ۔ میزبان پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف 8 میں سے پانچ ٹیسٹ جیتے اور تین ڈرا ہوئے۔ انگلینڈ کے خلاف سات میچ بے نتیجہ رہے اور دونوں ٹیموں نے ایک ایک میچ میں کامیابی حاصل کی۔ بھارت کیخلاف چھ ٹیسٹ میں سے پاکستان تین میں فاتح رہا اور تین ٹیسٹ ڈرا ہوئے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف چھ میں سے تین ٹیسٹ میچ پاکستان نے جیتے اور تین بغیر فیصلے کےختم ہوئے ۔ جنوبی افریقہ اور پاکستان نے ایک ایک ٹیسٹ میچ جیتا ۔ سری لنکا کے خلاف چھ میں سے پانچ ٹیسٹ میچ پاکستان کے نام رہے اورایک ڈرا ہوا۔ ویسٹ اڈیز کے خلاف سات ٹیسٹ میں سے پاکستان نے چار میں کامیابی حاصل کی اور تین بے نتیجہ رہے۔