دودھ کی قیمتوں کےتعین کیلئے کمشنر سمیت ضلعی انتظامیہ کےاختیارات چیلنج
سندھ ہائیکورٹ میں دودھ کی قیمتوں کے تعین کے لیے کمشنر سمیت ضلعی انتظامیہ کے اختیارات چیلنج کردئیے گئے۔
جمعرات کو ہائی کورٹ میں دودھ اور دیگر اشیا ضروریہ کی قیمتوں کے تعین کے طریقہ کار کے خلاف کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
عدالت نےفریقین کونوٹس جاری کرتے ہوئے ڈی جی بیورو سپلائی،کمشنر کراچی،سیکرٹری قانون اوردیگرفریقین سے جواب طلب کرلیا۔
عدالت نے 13 اپریل 2022 کو وضاحت پیش کرنے کا حکم دیا۔
درخواست گزار طارق منصور ایڈووکیٹ نے بتایا کہ دودھ سمیت دیگر اشیا ضروریہ کی قیمتوں کی جانچ پڑتال اورکنٹرول کا اختیار کمشنر کراچی اور دیگرکودے دیا گیا،کمشنر کراچی،اسسٹنٹ کمشنر اور دیگر لوگوں کوچھاپے مارنے کا اختیاردینا غیرقانونی ہے۔
طارق منصور ایڈووکیٹ نےموقف اختیار کیا کہ محکمہ بیورو سپلائی اینڈ پرائسز میں 1163 ملازمین کا 65 کروڑ روپے بجٹ رکھا جاتا ہے،ہوڈنگ اینڈ بلیک مارکیٹنگ ایکٹ میں غیرقانونی زخیرہ اندوزی پرسزاؤں کا تعین کیا گیا تھا۔
یہ بھی موقف اختیار کیا گیا کہ سال 1953میں کراچی ایسنشئیل آرٹیکلز پراسیسنگ پروفیٹینگ اینڈ ہوڈنگ ایکٹ کراچی ڈویژن کے لئے نافذ کیا تھا مگراس پرعملدرآمد نہ ہوا،گوڈاؤن کی رجسٹریشن کے لئے سندھ گوڈاؤن ریجسٹریشن ایکٹ 1996 لایا گیا مگر بے سود ثابت ہوا۔
درخواست گزار نے استدعا کی کہ ایکٹ کونافذ کرکےعوام کو ذخیرہ اندوزوں سے نجات دلائی جائے۔
یہ بھی بتایا گیا کہ 12سال پہلے دودھ کی قیمتوں کے تعین اور چھاپوں کا اختیار کمشنر کراچی کو دے دیا گیا،دودھ اوردیگر اشیاء ضروریہ کی قیمتوں کوکنٹرول کرنا جس محکمےکی ذمہ داری ہے اس کو نوٹیفکیشن کےزریعےغیرفعال کردیا گیا ہے۔