کینسر کیا ہے، کیسے پھیلتا ہے، اسکاعلاج کیسے ہوتا ہے؟
شوکت خانم کینسر اسپتال اور ایس آئی یو ٹی کے کینسر کی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر نجیب نعمت اللہ نے کہا ہے کہ سر سے پاؤں تک جسم کے کسی بھی حصے اور کسی بھی عمر میں کینسر ہوسکتا ہے، کینسر ایک بوجھ ہے، فرد، خاندان اور پوری قوم پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
دنیا بھر خصوصاً ترقی پذیر ممالک میں اموات کا سب سے بڑا سبب کینسر ہے، کینسر سے ہونیوالی بہت سی اموات کو بروقت تشخیص اور بہتر علاج کے ذریعے روکا جا سکتا ہے۔
پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے ویبینار سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر نجیب نعمت اللہ نے کہا کہ ہمارا جسم بہت سے خلیوں سے بنا ہوا ہے، جیسے کوئی عمارت بلاکس پر مشتمل ہوتی ہے، ایسے ہی ہمارا جسم ان سیلز پر مشتمل ہے، اس سسٹم میں خرابی کے نتیجے میں سیلز بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں اور ٹیومر بن جاتا ہے، کینسر کو اس لئے برا سمجھا جاتا ہے کہ وہ جسم کے جس حصے میں ہو اسے تباہ کردیتا ہے، اگر زبان ہے تو اس کی ساخت خراب کردے گا، حلق میں ہوگا تو حلق بند کردے گا اور پھیپھڑوں کا کینسر ہو تو سانس لینے کو متاثر کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ خلیوں میں موجود جینز خلیوں کا دماغ ہوتا ہے جو ان خلیوں کو کنٹرول کرتا ہے، ان جینز میں کسی بھی قسم کی خرابی کی وجہ سے کینسر وجود میں آتا ہے، جسم کے جس حصے میں کینسر ہوگا تو جسم کے اُس عضو کا کام متاثر ہوجائے گا، مثلاً زبان کے کینسر کی وجہ سے بولنے میں مشکل ہوگی، معدے میں ہے تو کھانا ہضم نہیں کرسکے گا، پھیپھڑوں میں ہے تو سانس نہیں لے سکے گا۔
ڈاکٹر نجیب نے مزید کہا کہ کینسر جب بڑھنا شروع ہوتا ہے تو جسم کے دوسرے حصوں کو بھی متاثر کرتا ہے، زبان کا کینسر گلے میں آجاتا ہے، پھیپھڑوں کا کینسر جگر اور دماغ میں چلا جاتا ہے اور جیسے جیسے کینسر پھیلتا ہے پورا جسم متاثر ہونا شروع ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر کینسر کی وجہ جینز میں خرابی ہوتی ہے، ممکن ہے خاندان میں کسی کو کینسر ہو، ماحول کی وجہ سے جینز میں خرابی پیدا ہوئی ہو، بہت سے کیمیکلز، الٹرا وائلیٹ ریز یا تمباکو کی وجہ سے جینز میں خرابی پیدا ہوئی ہو، پھر ان جینز میں تبدیلیاں ہوتی ہیں جو کینسر کا سبب بنتی ہیں۔
ڈاکٹر نجیب نے بتایا کہ کینسر کی کئی قسمیں ہوتی ہیں جس کیلئے بایوپسی کی جاتی ہے، لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ بایوپسی کرنے سے کینسر پھیل جاتا ہے، یہ بالکل غلط بات ہے ایسا کچھ نہیں ہوتا، بایوپسی کے بغیر یہ پتہ نہیں چلتا کہ کینسر ہے یا نہیں، اگر کیسنر ہے تو اس کی قسم کونسی ہے، اب تو بایوپسی یہ بھی بتادیتی ہے کہ کون سی دوا اس پر کام کریگی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کینسر ہو تو اس کے بعد یہ پتہ کرتے ہیں کہ کینسر کتنا پھیلا ہوا ہے، اسے اسٹیجنگ کہتے ہیں، اسے تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں، کینسر جس حصے میں ہے وہاں کا سائز کیا ہے، کتنا گہرا ہے، کیا صورتحال ہے، ٹیومر یا ٹی اسٹیج کہتے ہیں، اگر کینسر اپنی جگہ سے سے نکل کر اپنی علاقائی قریب کی گلٹیوں میں چلا گیا ہے تو اسے نوڈل یا این اسٹیج کہتے ہیں، اگر کینسر اپنی جگہ سے خون کے ذریعے جسم کے کسی اور حصے میں چلا گیا ہے تو جیسے ہڈیوں میں، جگر، پھیپھڑوں یا کسی اور حصے میں تو اسے میٹاسٹیٹیس یا ایم اسٹیج کہتے ہیں۔
ڈاکٹر نجیب نعمت اللہ نے مزید بتایا کہ یہ اسٹیجنگ دیکھنے کیلئے کچھ ٹیسٹ کئے جاتے ہیں، جیسے کہ سٹی اسکین، پیٹ اسکین، ایم آر آئی، الٹرا ساؤنڈز جیسے ٹیسٹ سے پتہ چلتا ہے کہ کینسر کہاں ہے، کینسر کے علاج کیلئے صرف کینسر کی بیماریوں کا ماہر ہی نہیں ہوتا بلکہ بہت سے شعبوں کے ماہرین مل کر اس کا علاج کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کبھی صرف سرجری یا آپریشن کے ذریعے کینسر کا علاج کیا جاتا ہے، کبھی ہم صرف دوائیں دیتے ہیں، جسے کیموتھراپی کہا جاتا ہے، اب کچھ نئی دوائیں آگئی ہیں، جیسے ٹاگیٹڈ تھراپی اور امیونوتھراپی اور بہت سی دوائیں ہیں، کیموتھراپی کے مضر اثرات بہت سے ہیں، وقتی طور پر بال جھڑ جانا، متلی، الٹی، کمزوری بھی ہوتی ہے، اس کے علاوہ کبھی شعاعوں سے بھی کینسر کا علاج کیا جاتا ہے، جسے ریڈی ایشن تھراپی کہتے ہیں، یہ دراصل ایکسریز ہی کی ایک شکل ہے جو مریض کو اس کینسر والے حصے پر دیئے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر نجیب کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر کینسر کے مریض کو ایک ہی طریقہ علاج دیا جائے دو یا تینوں طریقوں سے بھی کینسر کا علاج ہو سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارا کینسر کے علاج کا سب سے اولین مقصد تو یہی ہوتا ہے کہ مریض ٹھیک ہوجائے، یعنی کینسر کو جڑ سے ختم کردیں اور مریض ٹھیک ہوکر اپنی نارمل زندگی کی طرف واپس آجائے بالکل اسی طرح جس طرح اس مریض کی عمر کے لوگ زندگی گزارتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر کینسر کی جلد تشخیص ہوجائے یعنی ابتدائی اسٹیج پر پتہ چل جائے تو عام طور پر ہم یہ مقصد حاصل کرلیتے ہیں، اگر کینسر اپنی جگہ سے باہر نکل گیا، دوسرے حصوں میں پھیلنا شروع ہوگیا ہے، اسٹیج فور یا میٹاسٹیٹائز ہوگیا ہے تو پھر اُس صورت میں جب ہم کینسر کو ختم نہیں کرسکتے تو پھر ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہم علاج سے بیماری کو کنٹرول کریں اور زندگی کا دورانیہ جو کینسر سے کم ہورہا ہے اسے بڑھائیں۔
ڈاکٹر نجیب نعمت اللہ کا کہنا ہے کہ زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، سائنس نے یہ بتایا ہے کہ کینسر کے وہ مریض جنہیں علاج کی سہولت نہیں ملتی ان کے مقابلے میں جن کا علاج ہوتا ہے ان کی زندگی کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے بلکہ ایسے مریض بہتر زندگی گزارتے ہیں اور کام کرنے کی صلاحیت بھی بہتر ہوتی ہے اور ان کی تکلیف میں بھی کمی آتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کینسر پھیل گیا ہے اور اس کے نتیجے میں پیچیدگیاں ہو رہی ہیں تو ایسی صورت میں بھی مریض کا علاج کیا جاتا ہے، جسے پلی ایٹو کیئر کہتے ہیں اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مریض کی تکلیف کو کم کیا جائے اور جو زندگی موجود ہے اسے بہتر سے بہتر بنایا جاسکے، ہمیں چاہئے کہ سادہ اور صحت مند غذالیں، روزانہ ورزش کو معمول بنائیں۔