کیالاپتاافرادکےحق میں بولناحفیظ بلوچ کی گمشدگی کی وجہ ہے؟
ہم نے سیف سٹی پراجیکٹس کا تو بہت سنا ہے کہ کراچی، لاہور، اسلام آباد، فیصل آباد میں حکومت جرائم پر قابو پانے اور ملزمان تک باآسانی پہنچنے کیلئے ان کیمروں کی فوٹیج کا سہارا لے گی مگر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے وہ علاقے جہاں اکثر بڑے بڑے جرم سرزد ہوئے ہیں، وہاں دور دور تک تو کیا، پورا شہر میں ہی ایسے کسی منصوبے کا نام و نشان نہیں، آپ خضدار کی مثال لے لیں۔
لاپتا افراد کے مقدمات کا ذکر کیا جائے تو اس فہرست میں بلوچستان اول ہے، مگر آج تک انتطامیہ کی جانب سے یہاں کے حساس شہروں میں ایسے کسی پراجیکٹ کی چڑیا بھی پر نہیں مار سکی۔
حال ہی میں بلوچستان کے شہر خضدار کے مرکزی بازار سے دن دھاڑے نوجوان طالب علم حفیظ بلوچ کو اغوا کیا گیا، تاہم شواہد کی عدم دستیابی کے باعث پولیس اب تک ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے قاصر ہے، وجہ کیا ؟ بقول پولیس کے ایف آئی آر درج کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ناکافی شواہد اور گواہ کا نہ ہونا ہے۔
واقعہ کی ایف آئی آر درج کرنے میں تاخیر کیوں؟
اس سلسلے میں جب سماء ڈیجیٹل نے ایس ایچ او افضل زہری سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاندان کی شکایت پر ابتدائی رپورٹ درج کرلی گئی ہے، تاہم ایف آئی ار درج نہیں کی گئی۔
انہوں نے ہمیں بتایا کہ اس سلسلے میں ہمارے پاس نہ کوئی گواہ ہے، جو یہ گواہی دے سکے کہ ہم نے یہ وقوعہ خود دیکھا ہے، سب سے اہم بات یہ کہ متاثرہ خاندان واقعے کے 24 گھنٹوں بعد ایف آئی آر درج کرانے آیا، جو بذات خود ایک مشکوک بات ہے۔ پولیس کی جانب سے ڈی پی او کے ہمراہ جائے وقوعہ کا دو بار دورہ کیا گیا، چھان بین کی گئی، لوگوں سے پوچھا گیا، مگر تفتیش آگے نہ بڑھ سکی اور گواہی دینے کو کوئی تیار نہیں۔ اس سلسلے میں کسی کو زبردستی گواہی دینے کیلئے راضی نہیں کیا جا سکتا۔
ہم نے فی الحال واقعے کی رپورٹ دفعہ 157 کے تحت درج کی ہے، اغوا کیے گئے نوجوان کے والد سے جمعرات کے روز بھی ملاقات ہوئی۔
سوال تو بنتا ہے
وہ افراد جن کی گمشدگی کے واقعات کا کوئی گواہ نہ ہو، تو وہ لوگ کہاں جائیں؟ اس پر ایس ایچ او صاحب کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ جہاں یہ واقعہ ہوا، وہ ایک گنجان آباد اور بھیڑ والا علاقہ ہے اور دن میں کافی چہل پہل رہتی ہے، انہوں نے اس موقع پر اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ علاقے میں کوئی ایسی ڈیوائس یا عام فہم میں کہا جائےتو سی سی ٹی وی کیمرہ موجود نہیں تھا، جس میں یہ منظر قید ہوسکے۔ انہوں نے یقین دلاتے ہوئے کہا کہ پولیس ایف آئی آر تو ضرور درج کرے گی مگر اس سے پہلے وہ اپنی تمام تحقیقات مکمل کرے گی کہ یہ معاملہ کیا ہے۔ ابتدائی مرحلے میں فی الحال تحقیقات چل رہی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ متاثرہ خاندان کی جانب سے کسی پر بھی الزام عائد نہیں کیا گیا ہے۔
اہل خانہ کا مؤقف
اس سلسلے میں ہم نے جب لاپتا نوجوان حفیظ بلوچ کے اہل خانہ سے رابطہ کیا توان کے بھائی رضا بجوہی نے سماء ڈیجیٹل سے گفتگو میں بتایا کہ ہم ایک متوسط طبقے اور گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، ہمارا یا بھائی حفیظ کا کسی سیاسی جماعت یا کسی بھی قسم کی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں رہا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں اس بات کا بھی اندازہ نہیں کہ بھائی حفیظ کو اغوا کس نے کیا اور کیوں کیا۔ وہ ایک عام آدمی تھا، جو کتابوں میں گم رہتا ہے، مگر لوگوں نے اسے نظروں سے گم کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہ ہم کسی کو جانتے ہیں اور نہ ہمیں معلوم کہ یہ سب کچھ کیوں ہوا ہے؟۔ ہماری کسی تک پہنچ بھی نہیں، ہمیں سمجھ ہی نہیں آرہا کہ ہم کیا کریں۔
انہوں نے ہمیں بتایا کہ حفیظ اس واقعے سے ایک ہفتے قبل ہی مختصر چھٹیوں پر گھر آیا تھا کیوں کہ وہ پڑھائی میں بہت مصروف تھا، متعدد بار خاندان کی تقاریب کیلئے اسے شرکت کا کہا، جس پر اس کا کہنا ہوتا تھا کہ پڑھائی بہت سخت ہے اور چھٹی ملنا مشکل ہے۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ گھر بھی آتا تھا تو آس پاس کے لوگوں کی پڑھائی میں مدد کرتا تھا، یہاں بھی وہ مختلف بچوں کو پڑھا رہا تھا۔ واقعے کے روز شام سوا 5 بجے ہمیں اس کے استاد کا فون آیا کہ کچھ لوگ حفیظ کو اٹھا کر لے گئے ہیں۔ انہوں نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو صرف اللہ کو یاد کر رہے ہیں اور اسی سے مدد طلب کر رہے ہیں۔ ہم پرامن شہری ہیں، روز کے روز کمانے والے ہیں، ہمارا کسی سے کوئی جھگڑا یا لینا دینا نہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حفیظ بلوچ کا ایک بھائی پولیس میں اور دوسرا لیویز میں کانسٹیبل ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کیا کہ ہمیں یہ نہیں پتا کہ وہ یونی ورسٹی میں کس کے ساتھ بیٹھتا تھا یا کسی گروپ میں تھا یا نہیں۔ یہ ہمارے خاندان اور برداری میں پہلی دفعہ ہوا ہے۔ ہماری قوم پر امن قوم ہے۔
ایک سوال کے جواب میں کہ کیا حفیظ بلوچ کی بازیابی کیلئے منعقدہ احتجاج میں آُپ شرکت کریں گے ؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ نہ ہم ان لوگوں کو جانتے ہیں اور نہ ہم ایسے کسی احتجاج میں جائیں گے، ہم عام انسان ہیں ، جن کا کسی بھی تنظیم یا گروہ سے کسی قسم کا تعلق نہیں، نہ ہم ان کو جانتے ہیں۔ جو تنظیمیں یا گروپ احتجاج کر رہے ہیں وہ اپنی جانب سے اور اپنی مرضی سے کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے اور نہ ہی اس سے قبل حفیظ بلوچ نے ایسے کسی واقعے کی شکایت کی تھی۔
حفیظ بلوچ کون ہے
مبینہ طور پر لاپتا ہونے والے حفیظ بلوچ کا تعلق خضدار کے پسماندہ علاقے باغبانہ سے ہے۔ انہوں خضدار سے ہی اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کی۔ بعد ازاں فزکس میں ایم فل کرنے کے لیے اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔
رضا محمد نے بتایا کہ ان کے بھائی گزشتہ 9 ماہ سے اسلام آباد میں تھے۔ ان کی والدہ نے حفیظ بلوچ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی جس پر وہ خضدار آئے تھے۔ وہ گزشتہ 10 روز سے خضدار میں موجود تھے اور اس دوران ایک مقامی اکیڈمی میں بچوں کو فزکس پڑھاتے رہے تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 8فروری کو معمول کے مطابق حفیظ بچوں کو اکیڈمی میں پڑھا رہے تھے جہاں کچھ لوگ آئے اور ان کو اکیڈمی کے اندر سے اپنے ساتھ لے گئے۔ حفیظ بلوچ کی گمشدگی کے واقعے کے حوالے سے پولیس کو درخواست دے دی ہے تاہم اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
عبدالحفیظ بلوچ خضدار کے علاقے باغبانہ باجوئی سے تعلق رکھتے تھے ابتدائی تعلیم انہوں مقامی گورنمنٹ اسکول سے حاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لئے خضدار شہر سے حاصل کی۔


حفیظ بلوچ کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ
جہاں ایک طرف پولیس اور اہل خانہ حفیظ بلوچ کے اغوا کی وجوہات سے لاعلم ہے، وہیں اگر ہم حفیظ بلوچ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو دیکھیں تو ہمیں ٹاپ پر لاپتا شخص کی بازیابی سے متعلق ایک پوسٹ نظر آئی گی، جب کہ اس کے علاوہ بلوچ نیشنلزم اور سی ٹی ڈی سے متعلق بھی کچھ پوسٹس موجود ہیں۔
سوشل میڈیا پر حفیظ بلوچ کے ہیش ٹیگ پر فضل بلوچ کا کہنا تھا کہ حفیظ کے بارے میں اتنا جانتا ہوں کہ جب بھی اسے دیکھا کتابوں کے جھرمٹ میں دیکھا، جب کہ اس پر نظر پڑی وہ محو مطالعہ تھے، جب بھی اسے گفتگو کرتے سنا علم و دانش ان کا موضوع محور تھا۔

سماء سے گفتگو میں حفیظ کے قریب دوست کا کہنا تھا کہ یہ سب کو پتا ہے کہ حفیظ کو کس نے اٹھایا ہے، بلوچ لا پتا افراد کو لاپتا کہنا مناسب نہیں کیوں کہ یہ ہم سب کو پتا ہے کہ اس کے پیچھے کون ہے اور کہاں پر ہے۔
Hafeez Baloch is a student of M.Phil in QAU. He was on his vacations and teaching children in his hometown, Khuzdar. He was abducted forcefully in front of his students while teaching.@hrw @HRCP87 @VBMP5 @KiyyaBaloch #ReleaseHafeezBaloch pic.twitter.com/0BiDxkrPaH
— Arif Baloch (@ArifBaluch_) February 9, 2022
Hafeez B, a resident of Khuzdar, was doing his M.Phil. in Physics at QAU ISB was disappeared on Feb 8, & Ihtesham, a resident of Panjgur, a 1st y biotech student from IIUI, was killed. @mmatalpur Shb rightly said if State does so, some sensitive souls seek redress in revenge.
— Kiyya Baloch (@KiyyaBaloch) February 10, 2022
QAU: Scores of student joined peace walk today against the recent abduction of the fellow Qaudian Hafeez Baloch from Khuzdaar. The students demand the immediate release of Hafeez Baloch.#ReleaseHafeezBaloch #ReleaseAllMissingPersons #releasealiwazir pic.twitter.com/3xLtllxROd
— سرتور| Sartor (@Gharsanay12) February 10, 2022
Hafeez Baloch remained a focal voice against the atrocities occurring in Balochistan. He organised several demonstrations in Khuzdar along with the first protest for Sikandar university after a decade in Khuzdar. #ReleaseHafeezBaloch pic.twitter.com/UebWoyf8Ns
— Cadia Baloch (@balochsadia2) February 9, 2022
#Baloch nation is witnessing worst war crimes of the century. There is an hard struggle of the parents in keeping their sons away from state barbarism. Be it Ihtesham or Hafeez, state has brutally killed many sons of baloch mothers and abducted others.1/2 #ReleaseHafeezBaloch pic.twitter.com/Fz6uIadTQQ
— Mahrang Baloch (@MahrangBaloch_) February 9, 2022
انہوں نے ہمیں بتایا کہ اگر صرف خضدار کی بات کی جائے تو رواں سال کے آغاز میں خضدار کا یہ پہلا واقعہ ہے، جب کہ بلوچستان بھر سے صرف 8روز میں اب تک 30 افراد لاپتا کیے گئے ہیں۔
لاپتا افراد کی تعداد؟
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ معروف صحافی حنیف محمد کی جانب سے لاپتا افراد سے متعلق جامع ڈیٹا ایک کتاب کی شکل میں ترتیب دیا گیا ہے، جسے ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی ) کے توسط سے شائع کیا گیا ہے، جب کہ نصر اللہ بلوچ اور ماما قدیر کیمپ کی جانب سے بھی کام کیا گیا ہے۔ یہ لوگ لاپتا افراد پر کئی برس سے کام کررہے ہیں۔ سال 2021 میں جاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال تک لاپتا بلوچ افراد کی تعداد 60 ہزار سے زیادہ ہے۔
اس سے قبل بلوچستان کے ضلع نوشکی، پنجگور ،خضدار اور تربت سے بھی حالیہ دنوں میں 8 افراد کو حراست میں لے کر لاپتا کردیا گیا ہے۔ مقامی افراد نے ان واقعات میں خفیہ اداروں اور فوج کے ملوث ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔
آٹھ فروری کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت سے طالب علم رہنما اور بی ایس او کے مرکزی سیکریٹری جنرل کے بھائی اور پنجگور سے دو، نوشکی سے چار افراد کو حراست میں لے کر لاپتہ کیا گیا ہے۔
نوشکی سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نے سماء ڈیجیٹل سے گفتگو میں بتایا کہ یہاں کسی واقعے کے پیش نظر آپ بروقت اطلاع بھی نہیں دے سکتے ہیں کیوں کہ یہاں مواصلاتی نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس سے قبل 6 فروری کی رات سوئی سے تعلق رکھنے والے محمد ہاشم نامی شخص کو اس کے گھر سے نکال کر گھر کی تلاشی لی گئی اور بعد ازاں محمد ہاشم کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم افراد اپنے ہمراہ لے گئے۔ محمد ہاشم کے اہل خانہ نے جبری گمشدگی کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کہا تھا کہ فورسز کی 6 گاڑیوں پر مشتمل اہلکاروں نے محمد ہاشم کو حراست میں لے کراپنے ہمراہ لے گئے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ محمد ہاشم خود پاک فوج کے سابق اہل کار ہیں۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز
واضح رہے کہ حال ہی میں جبری گمشدگیوں کے خلاف کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز' نے حکومت کو لاپتا ہونے والے مزید 400 افراد کی فہرست فراہم کی تھی۔
تنظیم کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ کے مطابق 2020 میں بڑی تعداد میں جبری گمشدہ افراد واپس اپنے گھروں کو لوٹے البتہ 2021 میں نہ صرف لاپتا ہونے والے افراد کی بازیابی میں کمی آئی البتہ مزید کچھ لوگ لاپتا بھی ہوئے۔
نصر اللہ بلوچ کے بقول 2019 سے اب تک تنظیم 875 لاپتا افراد کی ایک فہرست حکومتِ بلوچستان کو فراہم کرچکی ہے جن میں سے 470 افراد بازیاب ہو کر واپس اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔
حالیہ دنوں میں ضلع پنجگور اور نوشکی میں سیکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کو سوشل میڈیا پر اُجاگر کرنے والے سماجی کارکن ملک میران بلوچ کی گمشدگی کی اطلاعات بھی سامنے آچکی ہیں جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
دوسری جانب لاپتا افراد کمیشن کی بازیابی کے لیے قائم کمیشن کا کہنا ہے کہ اس نے 31 جنوری 2022 تک 6163 کیسزنمٹائے۔ کمیشن کو 31 دسمبر 2021 تک مجموعی طور پر 8381 کیسزموصول ہوئے تھے جب کہ جنوری میں مزید 34کیس موصول ہوئے جس کے باعث مجموعی کیسز کی تعداد 8415 ہوگئی ہے۔