ڈرامہ ، یکسانیت کا شکار کیوں ؟
پاکستانی ڈرامے میں موضوعات کی یکسانیت نے شائد تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ تیس سے زائد چینلز پرکسی بھی ڈرامے کا ایک ہی منظر دیکھنے کے بعد ساری کہانی یوں سمجھ میں آجاتی ہے کہ ذہن پر زیادہ زور دینے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی ۔ سورج اگر مشرق کی بجائے مغرب سے بھی طلوع ہوجائے ہمارے ڈرامہ بنانے والے کہنہ مشق ہدایتکاروں کا پسندیدہ ترین موضوع پھر بھی یہی رہے گا کہ ایک حسین و جمیل لڑکی اور لڑکے کی شادی ان کی مرضی کے خلاف کردی گئی ہے اور اب وہ کسی طریقے سے اپنے پرانے محبوب کے عقد میں جانے کےلیے بے چین ہیں ۔ یہی بے چینی اور کشمکش ہر ڈرامے کا موضوعِ سخن ہے۔ یا پھر ایک ظالم ساس اپنی نیک طینت بہو کو ستانے میں رات دن ایک کئے ہوئے ہے اور بہو خاموشی سے سارے مظالم سہنے پر مجبور ہے ۔
یہ دنیا ادھر سے اُدھر ہوجائے ہمارے نام نہاد تخلیق کاروں کی سوئی اسی موضوع پر اٹکی رہے گی تاوقتیکہ خلق خدا انہیں کیمرے کے پیچھے سے دھکے دے کر کالے پانی کی سزا نہ سنادے ۔ مرد وخواتین کے سلسلہ ہائے مناکحت میں نہ جانے ایسی کیا کشش ہے کہ فنون لطیفہ کے بزر جمہر ان سے باہر نکلنے کو تیار نہیں ۔ ذرا ایک لمحے کےلیے اپنے اردگرد نظر دوڑائیے ، موضوعات کی بھرمار ہے۔ پنجاب کے نیم دیہی ، نیم شہری علاقوں کا طرز زندگی ، دیہی سندھ کا ماحول ، بلوچستان کے پہاڑوں میں بکھری داستانیں ، خیبر پختونخوا میں روایات کی پسماندہ دنیا اور سب سے بڑھ کر آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کی جنت نظیر وادیاں ، ان میں بسنے والے حسین و جمیل لوگ ۔ ڈرامے کا موضوع چننے کے لیے کیا کچھ دستیاب نہیں مگر بیس کروڑ پاکستانیوں پر لازم ہے کہ وہ کراچی ، لاہور اور اسلام آباد کی شہری زندگی سے متعلق ہی کہانیاں دیکھتے جائیں اور سر دھنتے جائیں ۔ نئی گاڑی ، قیمتی ملبوسات ، خوبصورت لان والا بنگلہ ، نوکرچاکر اور میک اپ سے سجے نازنینوں کے چہرے ، بس پیارے پاکستانیوں کی قسمت میں ڈرامے کے ذریعے یہی کچھ دیکھنے کو رہ گیا ہے ۔
ٹی وی چینل نہ جانے کیوں پورے پاکستان میں احساس کمتری کو اجاگر کرنے کا گناہ اپنے ذمہ لے کر مطمئن ہیں ؟ ۔ اگرچہ ڈرامہ تفریح کا ہی ایک ذریعہ ہے مگر اس تفریح کے دوران اگر کوئی تعمیری سوچ ، منفرد خیال اور تاریخی شعور بھی لوگوں تک بہم جائے تو کیا حرج ہے ؟۔ ڈرامے کا موضوع اگر حقیقت کے قریب تر ہو تو شائد آپ دیکھنے والوں سے زیادہ انہماک ، زیادہ توصیف کی توقع کرسکتے ہیں ۔ کہنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ کہ ٹی وی چینل اپنا بزنس نظر انداز کردیں ۔ یقیناً شوبز کا مطلب ہی ایسا شو ہے جو بزنس کرے ۔ آپ پیسے ضرور کمائیے ، مگر ہالی وڈ نہیں تو ذرا تُرک ڈراموں کے موضوعات کی جانب ہی ایک نظر ڈال لیجئے ۔ ان کے ساتھ ہماری ثقافتی یگانگت کی بدولت سیکھنے کو بہت کچھ ہے ۔ نئے نئے موضوعات کے ساتھ یہ ڈرامے نہ صرف ترک عوام میں بہت مقبول ہیں بلکہ ترکی سے یکسر مختلف حالات سے دوچار پاکستان میں بھی ان ڈراموں نے اپنی دھاک بٹھادی ہے ۔ سلطان سلیمان کی کہانی پر مبنی ڈرامے میں ترک ہنرمندوں کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی ۔ اسی طرح '' الف '' کے نام سے ایک اور ڈرامے میں ترکی کے سیاسی حالات کے پس منظر میں ایک منفرد کہانی تشکیل دی گئی ہے ۔ ترک سیاست میں ابھرتے ہوئے اسلام پسندوں اور کمال اتاترک کی حامی سیکولر فوج کے درمیان کشمکش کو اس موثر انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ وہاں کے حالات سمجھنے کے لیے شائد کئی کتابیں پڑھ کر بھی اتنی معلومات نہ ملیں ۔
پاکستان کی سیاسی قیادت بھی ان ڈراموں سے کافی رہنمائی لے سکتی ہے کیونکہ طیب اردوان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے جس طرح ان ڈراموں کے ذریعے رائے عامہ اپنے حق میں ہموار کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ ان ڈراموں میں کمال اتاترک کے فکری حامیوں کے کردار ایسے منفی انداز میں پیش کیے گئے ہیں کہ ترکی کی جیلوں میں پڑے 500 سے زائد فوجی افسروں کے خلاف لوگوں کے غصے کو ایک نئی مہمیز ملی ہے ۔
دنیا کا تجربہ یہی بتاتا ہے کہ ڈرامے کے ذریعے آپ پیسہ کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں مگر اس کےلیے دماغ کے خوابیدہ خلیے بیدار کرنا ہوں گے ۔ جاگتی آنکھوں سے اردگرد دیکھنا ہوگا ۔ بناوٹی رہن سہن سے نکل کر خلق خدا کے پاس جانا ہوگا ۔ کیا آج کے ڈرامہ نگاروں کےلیے یہ ممکن ہوسکتا ہے ؟
pakistani dramas
تبولا
Tabool ads will show in this div