کراچی میں کینسر کا مفت علاج کہاں کہاں ہوتا ہے؟
پاکستان سمیت دنیا بھر میں مختلف اقسام کے کینسر کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن پاکستانی شہریوں کی اکثریت کو اس کا علم نہیں کہ انہیں کینسر کی تشخیص یا علاج کیلئے کن اسپتالوں کا رخ کرنا چاہیے۔ کراچی شہر میں ایسے اسپتال کہاں کہاں موجود ہیں جو کینسر کی مفت تشخیص اور علاج کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔
کراچی میں اس وقت کینسر کے علاج کیلئے بچوں کے دو مراکز ایسے ہیں جہاں مفت علاج کی سہولیات موجود ہیں، بڑی عمر کے افراد کیلئے سرکاری سطح پر کرن اور جناح اسپتال میں کینسر کے علاج کی مکمل سہولت دستیاب ہے۔
سول اسپتال میں ریڈیو تھیراپی کے سوا کینسر کی تمام بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے اور بچوں کے کینسر کا شعبہ قائم کرلیا گیا ہے جہاں بہت جلد بچوں کے کینسر کا علاج شروع کر دیا جائے گا جبکہ بعض نجی فلاحی ادارے بھی کینسر کی بیماریوں کے بنیادی علاج کی سہولیات فرہم کر رہے ہیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 4 فروری کو عالمی یوم سرطان منایا جاتا ہے، جس کا مقصد شہریوں کو کینسر کے مرض، علاج اور احتیاط سے متعلق آگہی فراہم کرنا ہے۔
پاکستان میں خواتین میں سب سے زیادہ چھاتی کا کینسر اور مردوں میں منہ کے کینسر کے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔ ماہر امراض کینسر و ناک کان منہ اسسٹنٹ پروفیسر عاطف حفیظ کا کہنا ہے کہ بروقت تشخیص اور علاج ہی کینسر سے لڑنے کا واحد ہتھیار ہے، خواتین ہر 6 ماہ میں ماہر امراض نسواں سے چھاتی کا معائنہ کروائیں، مرد منہ میں کسی بھی معمولی زخم یا دانے کی صورت میں فوری ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
انہوں نے کہا کہ بروقت مرض کی تشخیص سے انسانی جانوں کے ضیاع کو بچایا جاسکتا ہے، اس وقت ملک بھر میں کینسر کے حوالے سے آگاہی پھیلانے کی اشد صورت ہے کیونکہ احتیاط اور بروقت علاج اذیت ناک موت سے بہتر ہے۔
جناح اسپتال کے ڈاکٹر خلیل مہر نے سماء ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کراچی کی سطح پر جناح اسپتال، ایس آئی یو ٹی، کرن اسپتال، سول اسپتال میں کینسر کا مفت علاج کیا جا رہا ہے، انڈس اسپتال میں کینسر میں مبتلا بچوں کا علاج بھی مفت کیا جاتا ہے، جناح اسپتال میں مکمل اور مفت علاج کیا جاتا ہے، چاہے وہ سائبر نائف ہو، ٹوموتھیراپی ہو یا کوبالٹ کی مشینری ہو یا ڈپارٹمنٹ آف آنکالوجی ہو، ہر طرح کا علاج مفت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ انڈس اسپتال بچوں سے متعلق بہت اچھا کام کر رہا ہے، وہاں جتنے بھی بچے ہیں انہیں مکمل مفت علاج فراہم کیا جارہا ہے، بعض این جی اوز کے اسپتالوں میں بھی فرسٹ لائن ٹریٹمنٹ یا پلی ایٹو کیئر تو ہے لیکن مکمل علاج نہیں ہے۔
ڈاکٹر خلیل کا کہنا تھا کہ کینسر کے اندر ایک موڈیلیٹی کا کام نہیں ہے، کینسر میں ہر ڈاکٹر کا کام ہے، وہ جنرل سرجن ہو یا آنکالوجیکل سرجن ہو، کولوریکٹل سرجن ہو یا ہیڈ اینڈ نیک سرجن ہو، سب ہی اس سے تعلق رکھتے ہیں، پھر ریڈی ایشن آنکالوجسٹ کا اپنا کردار ہے، ریڈی ایشن آنکالوجسٹ بھی اس میں کام کرتے ہیں، کیموتھیراپی کلینیکل آنکالوجسٹ بھی لگاتا ہے، میڈیکل آنکالوجست بھی لگاتا ہے، جس کی وجہ سے یہ ایک پوری چین ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بریسٹ کینسر میں مبتلا مریضوں میں زیادہ تر نوجوان خواتین آرہی ہیں، ہمارے ہاں ہر 100 میں سے 8 یا 10 خواتین میں چھاتی کے کینسر کی تشخیص ہو رہی ہے، نوجوان خواتین کو صرف کیموتھراپی کی ضرورت ہوتی ہے، بجائے اس کے کہ سرجری کی جائے، ایسے مریضوں کو پہلے کیموتھراپی دی جانی چاہیے، مناسب طریقے سے کلپنگ لگوائی جائے تاکہ ان کی چھاتی بچ سکے اور وہ نارمل زندگی گزار سکیں۔
ڈاکٹر خلیل مہر کا کہنا ہے کہ بعض فلاحی اداروں کے چکر کاٹ کر جناح اسپتال آنے والے مریض شکایت کرتے ہیں کہ فلاحی ادارے بھی علاج کے پیسے لیتے ہیں جبکہ یہاں او پی ڈی سے لے کر مکمل علاج تک سب مفت ہے، ہر طرح کی سرجری، کیموتھراپی اور ریڈی ایشن کسی بھی موقع پر پیسے نہیں لیے جاتے، میرا دعویٰ ہے کہ یہاں کوئی کیش کاؤنٹر نہیں ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کینسر کے مریضوں میں اضافے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے ہم صرف 3 دن او پی ڈی کرتے تھے لیکن اب زیادہ مریضوں کی وجہ سے 5 دن او پی ڈی کرنی پڑتی ہے، ہر او پی ڈی میں 100 سے 150 کینسر کے مریض ہوتے ہیں، ہمارے پاس پورے سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب سے بھی مریض آتے ہیں، حتیٰ کہ اب کچھ مریض خیبرپختونخوا سے بھی آرہے ہیں، ظاہر ہے اس کے نتیجے میں مریضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔
ڈاکٹر خلیل کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ کراچی کا جناح اسپتال غریب مریضوں کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں ہے، ہمارے پاس سب سے زیادہ منہ کے کینسر کے مریض آتے ہیں، آج کی او پی ڈی میں منہ کے کینسر کے 110 مریض تھے، اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ منہ کا کینسر کتنا تیزی سے پھیل رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان مریضوں میں زیادہ تر افراد وہ ہیں جو پان، گٹکا، تمباکو استعمال کرتے ہیں، ان چیزوں کے استعمال سے نوجوان زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، آج بھی 6 مریض ایسے تھے جن کی عمریں مشکل سے 20 سے 30 سال کے درمیان ہوں گی۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر خلیل کا کہنا تھا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر ضلع میں کینسر کا ایک بڑا اسپتال ہونا چاہیے، کراچی میں چار، حیدرآباد میں 2 ، نوابشاہ، سکھر، شکارپور، جیکب آباد میں بھی ایک ایک اسپتال ہونا چاہیے، اگر ایسا ہوا تو اس سے جناح اسپتال پر دباؤ میں کمی آئے گی۔
انڈس اسپتال میں چلڈرن کینسر اسپتال سے منسلک بچوں میں سرطان کی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر احمر حامد نے بتایا کہ کراچی میں بچوں میں کینسر کی بیماری کا مفت علاج انڈس اسپتال اور این آئی سی ایچ میں ہوتا ہے، اس مرض کا علاج سنگل سسٹم کے تحت نہیں ہوتا، اس میں بہت سے لوگ جڑے ہوتے ہیں، ہمارے ہاں کینسر کا مکمل علاج ہوتا ہے، کیموتھیراپی اور سرجری بھی ہوتی ہے، لیکن بچوں کی ریڈیوتھیراپی نہیں ہوتی، انہیں ہم آغا خان یا ضیاء الدین اسپتال بھیجتے ہیں تاہم ان کے علاج کے پیسے انڈس اسپتال ہی ادا کرتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ انڈس اسپتال میں بڑوں کے کینسر کا علاج نہیں ہوتا لیکن ہمارے ہاں بریسٹ کینسر، منہ کا کینسر یا ایبڈومینیل کینسر کی سرجری بہت اچھی ہوتی ہے، کینسر میں آنکالوجیکل سرجری ایک بہت بڑا چیلنج ہے، سر اور گردن کے علاج کی ہمارے ہاں بہت اچھی ٹیم ہے، جو سرجری کرتی ہے لیکن سرجری کے بعد ایسے مریضوں کو کسی اچھے آنکالوجسٹ کے پاس بھیج دیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر احمر حامد کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے پاس بچوں کے کینسر کے ہر ماہ 100 سے زیادہ نئے مریض آتے ہیں، سالانہ یہ تعداد تقریباً 1200 تک بنتی ہے، ہر طرح کے کینسر میں سرجری کی ضرورت نہیں ہوتی، صرف سولڈ ٹیومر میں سرجری کی ضرورت ہوتی ہے، سولڈ ٹیومر بچوں میں کینسر کا صرف 30 سے 40 فیصد ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم پر کینسر کے مریض بچوں کا بوجھ بہت بڑھ گیا ہے، اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے بلوچستان حکومت سے ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت کوئٹہ کے شیخ زید اسپتال میں بچوں کے کینسر کا بنیادی علاج شروع کیا گیا ہے، اسی طرح بدین انڈس اسپتال میں بنیادی علاج کا آغاز کر دیا ہے اور این آئی سی ایچ میں بھی یہ علاج ہو رہا ہے، لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت مزید ہیومن ریسورس اور سپورٹ فراہم کرے۔
ڈاکٹر احمر حامد نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان میں سالانہ 10 ہزار بچوں میں کینسر کی تشخیص ہوتی ہے، اس میں سے صرف 40 فیصد بچوں کو علاج کی سہولیات میسر آتی ہیں، ایک اندازے کے مطابق 50 فیصد بچے علاج کی سہولیات نہ ملنے کے باعث انتقال کر جاتے ہیں، چیلنجز بہت ہیں، ہمیں لوگوں کو اس حوالے سے آگہی فراہم کرنا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ بچوں میں سب سے زیادہ عام خون کا کینسر ہے جو تمام کینسر کا 60 فیصد ہوتا ہے، اگر کسی کو 2 ہفتے سے زیادہ تیز بخار ہو، جسم اور جوائنٹس میں شدید درد، تھکن، سستی، تھکاوٹ رہنا، خون کی کمی، جسم پر دھبے پڑنا، خون کے کینسر کی علامات ہیں، ہمارے پاس افغانستان اور ایران کے بچے بھی آتے ہیں، جن میں افغانستان سے آنے والے بچوں کی زیادہ بہت زیادہ ہے۔
سول اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اور ماہر امراض کینسر ڈاکٹر نور محمد سومرو نے کینسر کے عالمی دن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سول اسپتال میں کینسر کی تمام بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے، ہمارے پاس صرف ریڈیوتھیراپی کی سہولیات موجود نہیں ہیں، بہت جلد سول اسپتال میں کینسر میں مبتلا بچوں کا شعبہ قائم کریں گے جس کے بعد یہاں بھی بچوں کے کینسر کا علاج کیا جائے گا، ہمارے پاس ماہانہ مختلف کینسر میں مبتلا 2 سے 3 ہزار مریض آتے ہیں۔
جناح اسپتال میں ریڈی ایشن آنکالوجسٹ ڈاکٹر عظمیٰ گل نے سماء ڈیجیٹل سے گفتگو میں کہا کہ جے پی ایم سی میں سائبر نائف ایسا ادارہ ہے جہاں ریڈی ایشن سرجری کی سہولت موجود ہے، اس وقت پورے پاکستان میں مفت ریڈی ایشن سرجری صرف سائبر نائف میں کی جاتی ہے، اس کے علاوہ ہمارے پاس کینسر کی تشخیص کیلئے جدید سہولیات بھی موجود ہیں، الٹرا ساؤنڈ، بایوپ سیز، سی ٹی اسکین، ایم آر آئی، پیٹ اسکین، گاما نائف اور ٹومو تھیراپی کی بھی یہاں سہولت ہے۔
ڈاکٹر عظمیٰ نے بتایا کہ سرکاری اسپتالوں میں صرف ہمارے پاس گاما نائف کی سہولت موجود ہے، یہ بھی ریڈیو سرجری کا ایک اور حصہ ہے، جو نہ پھیلنے والے ٹیومر ہوتے ہیں، ان کا سائبر نائف پر علاج کیا جاتا ہے، اسے ہم ریڈیو سرجری کہتے ہیں، پھیلنے والے ٹیومرز کیلئے ہم ٹوموتھیراپی کرتے ہیں، ہمارے پاس مریضوں کا دباؤ بہت زیادہ ہے۔