بلوچستان سے متعلق سید علی گیلانی کی تشویش
مانا کہ بلوچستان کے اندر بگاڑ میں ہمسایہ ممالک دخیل ہیں، بھارت، افغانستان اور ایران اور ان کے جاسوسی کے اداروں کی توجہ بلوچستان پر مرکوز تھی اور ہے۔ افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد البتہ ایک باب بند ہوچکا ہے۔ بھارتی ”را“ کے زیر دست سابقہ کابل رجیم کی ”این ڈی ایس“ ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔ یقیناً دور دراز کے دوسرے ممالک نے بھی کسی نہ کسی طور بلوچستان کو در پردہ اپنی پالیسیوں کا جُز بنا رکھا ہے۔ چناں چہ اس امر میں بھی کلام نہیں کہ اس طویل خرابی و بگاڑ میں پاکستان کی حکومتوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں، سیاسی جماعتوں کی ترجیحات، اغراض اور کوتاہیوں کا بھی گہرا عمل دخل ہے۔
ڈیرہ بگٹی کے واقعات کے بعد خرابی مزید پھیل گئی، نواب اکبر خان بگٹی کی حیات میں سوئی میں تعینات خاتون ڈاکٹر شازیہ سے پیش آنے والے افسوسناک واقعے کے بعد بننے والی صورتحال کے حقائق خواہ جو بھی ہوں، مگر یہ حقیقت ہے کہ ریاست کی جانب سے سنجیدگی و معاملہ فہمی کا مظاہرہ نہ ہوا۔ نواب بگٹی بات چیت یا مذاکرات سے قطعی گریزاں نہ تھے، پرویز مشرف چاہتے تو نوبت تصادم کی نہ آتی، چوہدری شجاعت حسین، سید مشاہد حسین اور دوسروں کو اختیار دیا جاتا تو نواب اکبر خان بگٹی کے ساتھ پیدا ہونے والی تلخیوں اور گیس ذخائر سے متعلق معاملات بھی خوش اسلوبی سے طے پاجاتے۔ ڈیرہ بگٹی اور کوہلو کے درمیان کے پہاڑی علاقے ”تراتانی“ میں 26 اگست 2006ء کو سانحہ عظیم پیش نہ آتا، جو ریاست پر بد نما داغ ہے۔
مابعد قانون بھی ساکت رہا، نواب اکبر خان بگٹی کی میت کے ساتھ وہی ہوا، جو بنگلہ دیش کی حسینہ واجد نے جماعت اسلامی کے رہنماﺅں کو تختہ دار پر لٹکانے کے بعد کیا اور مصر کے فوجی آمر جنرل سیسی نے منتخب صدر محمد المرسی کی میت کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا، جیل کے اسپتال میں غسل دینے اور نماز جنازہ پڑھانے کے بعد سخت پہرے میں دفنا دیا تھا۔ بعینہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج نے سید علی گیلانی کے جسد خاکی کے ساتھ کیا، کڑے فوجی پہرے میں سنگین کے زور پر میت لے جاکر دفنائی گئی۔ خاندان کے کسی فرد کو تدفین میں شریک ہونے نہ دیا گیا۔
بلوچستان کے حالات کے کئی عوامل ہیں، مگر ماننا پڑے گا کہ” تراتانی“ غار کے المناک سانحہ کے بعد نفرت کی فضاء بنی، شدت پسندی کو فروغ ملا ہے، پرویز مشرف حکمرانی کا نشہ پورا کرکے چلے گئے جبکہ بلوچستان آج بھی سلگ رہا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ صوبے کے کسی گوشہ میں ایف سی، فوج اور دوسری فورسز کے جوان بم حملوں کا نشانہ نہ بنتے ہوں، مزدور نہ مارے جاتے ہوں، کوئی فرد لاپتہ نہ ہو تا ہو، تنصیبات نشانہ نہ بنتی ہوں۔
پرویز مشرف طاقت اور اقتدار کے نشہ میں کوئی رائے اور احسن تدبیر قبول کرنے کو تیار نہ تھے، وہ بلوچستان اور نواب اکبر خان بگٹی مسئلہ بارے مقبوضہ کشمیر کے سید علی گیلانی کو بھی حقارت سے دیکھتے بلکہ انہیں انتقام کا نشانہ بنایا تھا۔ سید علی گیلانی مرحوم کو بلوچستان کے حالات پر گہری تشویش تھی۔ سید علی گیلانی مرحوم کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے مؤثر اور مدبر آواز تھے، جس کی پاداش میں بھارت کے ظلم و جبر کا کونسا حربہ تھا جو اس ولی کامل نے برداشت نہ کیا، دوران اسیری بدترین تشدد کا نشانہ بنتے رہے، گویا پوری زندگی اسیری اور نظر بندی اور طرح طرح کی صعوبتیں جھیلنے میں بسر کردی اور ان اذیتوں ہی میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ یہاں تک کہ میت بھی کرفیو کے دوران بھارتی فورسز گھر میں گھس کر زبردستی تدفین کیلئے لے گئیں۔
سید علی گیلانی، نواب اکبر خان بگٹی کی موت سے قبل کے حالات پر متفکر تھے، وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کی وحدت کو نقصان پہنچ رہا ہے، اپریل 2005ء کو پرویز مشرف بطور صدر پاکستان کا نئی دہلی کے دورے سے قبل نئی دہلی میں مقیم پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر منور سعید بھٹی کے ذریعے سید علی گیلانی مرحوم کو بلواسطہ اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ گیلانی صاحب، پرویز مشرف سے ملاقات میں بلوچستان کی صورتحال پر بات نہ کریں، اس کے علی الرغم سید علی گیلانی نے بلوچستان بارے اپنی تشویش کا اظہار کر ہی دیا اور پرویز مشرف کی پالیسیوں پر تنقید کی۔
جنرل (ر) پرویز مشرف نے ملاقات میں سید علی گیلانی کو مخاطب کیا کہ آپ بلوچستان کے معاملات میں ٹانگ اڑاتے رہتے ہیں، آپ کو وہاں کی صورتحال کے بارے میں کچھ پتہ نہیں اور آپ بلوچستان کی فکر کرنا ترک کردیں۔ گیلانی صاحب نے جواب دیا کہ کشمیر کاز پاکستان کی بقاء سے منسلک ہے، اس کی جغرافیائی سلامتی اور نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کی ہمیں فکر ہے، آپ (پرویز مشرف) اپنے لوگوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کریں۔
گیلانی صاحب نے پرویز مشرف کی افغان پالیسی پر بھی تنقید کی۔ گیلانی صاحب مرحوم بلوچستان کے حالات بارے بیانات دیتے، خاص کر نواب اکبر بگٹی کے ساتھ بات چیت اور مذاکرات کا مشورہ دیتے۔ بعد ازاں ”تراتانی“ غار سانحہ پر گیلانی صاحب بہت خفا و مضطرب ہوئے تھے۔
بلاشبہ بلوچستان بھاری نقصان اٹھا چکا ہے، سیاسی فضاء اب بھی ہموار نہیں ہے، نتیجہ خیز پیشرفت دکھائی نہیں دیتی، البتہ نواب اکبر خان بگٹی کے پوتے نوابزادہ براہمداغ بگٹی کے ساتھ بناﺅ کے آثار محسوس ہورہے ہیں۔ 20 جنوری کو لاہور کے انار کلی بازار میں بم دھماکے میں 3 افراد جاں بحق ہوئے، ذمہ داری بلوچستان سے تعلق رکھنے والی شدت پسند تنظیم بلوچ نیشنل آرمی (بی این اے) نے تسلیم کرلی، جو کالعدم بلوچ ری پبلکن آرمی اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی سے الگ ہونیوالے افراد پر مشتمل نئی تنظیم ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی ایوان بالا کے 24 جنوری کے اجلاس میں بتایا کہ یہ تنظیم 11 جنوری 2022ء کو وجود میں آئی ہے، بلوچ شدت پسند تنظیمیں ماضی میں لاہور اور اسلام آباد سمیت بلوچستان سے ملحقہ پنجاب کے علاقوں رحیم یار خان، صادق آباد، کشمور اور راجن پور میں حملے کرچکی ہیں۔ براہمداغ بگٹی نے یہ کہہ کر واقعہ کی مذمت کی ہے کہ ”سویلین اور معصوم لوگوں کو نشانہ بنانا قابل مذمت ہے، ہم بلوچ بھی سالوں سے اس طرح کے حملوں کے متاثرین ہیں مگر اس کے باوجود اس طرز کے غیر انسانی عمل کا کوئی جواز نہیں“۔
براہمداغ بگٹی بلوچ ری پبلکن پارٹی کے سربراہ ہیں، بلوچ ری پبلکن آرمی (بی آر اے) کی قیادت بھی ان سے منسوب ہے، اس گروہ نے اپنے وسائل اور بساط کے مطابق فورسز، قومی تنصیبات اور عام لوگوں کو نشانہ بنایا ہے، جس کی تخریب و دہشتگردی اور قتل کے واقعات کی تفصیل ہوشربا ہے۔
بہرحال امن مقدم ہے، ریاست اگر بات چیت میں کامیاب ہوتی ہے تو اس صوبے کی سیاست اور حالات پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ مگر یاد رہے کہ یہ محض براہمداغ بگٹی، بختیار ڈومکی تک محدود نہیں رہنا چاہئے، یقینی طور اس کا دائرہ دوسرے بلوچ رہنماﺅں، جنگی کمانڈروں اور خان آف قلات میر سلیمان داﺅد تک پھیلائے بغیر مقاصد حاصل نہ ہوں گے۔ پیش ازیں صوبے سے ہونیوالی زیادتیوں کا تدارک ہو، حال یہ ہے کہ بلوچستان کے جعلی ڈومیسائل پر پنجاب اور دوسرے علاقوں کے سینکڑوں لوگوں نے ملازمتیں حاصل کر رکھی ہیں، اسمبلی اجلاسوں میں اس بارے میں احتجاج ہوا ہے، قراردادیں منظور ہوچکی ہیں، تو باقی زیر زمین معدنی وسائل اور ساحلوں پر صوبے کے عوام کے حقوق کیسے محفوظ ہوں گے۔
دوسرے صوبوں سے آنے والے چیف سیکریٹری اس راہ میں حال ہوتے ہیں، جنہیں صوبے کے اندر ”وائس رائے“ کہہ کر پکارا جاتا ہے، وفاق سے آنے والے بیورو کریٹس بھی نہیں چاہتے کہ بلوچستان کے کوٹہ پر جعلی ڈومیسائل کے ذریعے بھرتیوں کا راستہ روکا جائے کیونکہ وہ اپنے عزیز و اقارب کو اس جعلسازی کے ذریعے نوازتے ہیں۔
گویا مقتدرہ کی ترجیحات صوبے کے عوام کے مفادا ت کے برعکس ہیں، عبدالقدوس بزنجو کو وزارت اعلیٰ کے اہم اور معتبر منصب پر بٹھانا کیا ارباب حل و عقل کی نیت کا کھلا اظہار نہیں ہے؟، ایسے میں کسی بھی نقصان اور ناکامیوں کے ذمہ دار حکومتی ٹولے سمیت کیا یہ سب نہیں ہیں؟۔