صحتمند زندگی کیلئے کونسے ٹیسٹ، معائنے ضروری ہیں؟
ہم اکثر یہ پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں کہ انسان کو اچانک کسی بیماری کے نرغے میں آنے سے بچنے اور ایک محفوظ و صحت مند زندگی گزارنے کے لیے سال میں ایک یا 2 مرتبہ اپنا طبی معائنہ اور لیبارٹری ٹیسٹس کرواتے رہنا چاہیے۔
اس حوالے سے سماء ڈیجیٹل نے طبی ماہرین سے تفصیلی گفتگو کی اور یہ دریافت بھی کیا کہ وہ کون سے ٹیسٹ اور معائنے ہیں جنہیں کروا لینے چاہئیں تاکہ سنگین نوعیت اختیار کرنے سے پہلے ہی بیماریوں سے بچاؤ کی کوشش کی جاسکے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی شہریوں کی اکثریت غیر صحت مندانہ طرز زندگی اختیار کیے ہوئے ہے ان حالات میں 30 سال سے زائد عمر کے افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ سال میں کم از کم ایک بار اپنے چند اہم ٹیسٹ اور طبی معائنہ ضرور کروائیں تاکہ انہیں اپنی صحت سے متعلق آگاہی حاصل ہو سکے اور وہ احتیاطی تدابیر اور علاج شروع کرکے قبل از وقت اموات اور معذوری سے بچنے کی کوشش کرسکیں۔
سماء ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے معروف گیسٹرواینٹرولوجسٹ اور فزیشن ڈاکٹر شاہد احمد نے کہا کہ سال میں کم از کم ایک مرتبہ کمپلیٹ بلڈ کاؤنٹ یا سی بی سی، شوگر اور بلڈ پریشر، گردوں کی صحت جانچنے کے لیے یورین ڈی آر، سینے کا ایکسرے، ای سی جی اور کولیسٹرول چیک کروانے کے لیے لیپڈ پروفائل ضرور کروا لینا چاہیے۔
ڈاکٹر شاہد احمد کا کہنا تھا کہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ یورک ایسڈ کا بڑھنا بھی ایک مسئلہ ہوجاتا ہے اس لیے اسے بھی چیک کرواتے رہنا چاہیے اور اگر کوئی شخص ذیابطیس اور ڈپریشن کا شکار ہو چکا ہو تو پھر اسے مزید ٹیسٹ تجویز کیے جاتے ہیں۔
سال میں ایک بار آنکھوں کا معائنہ بھی ضروری ہے اور خواتین کو بھی سال میں ایک دفعہ گائناکالوجسٹ سے ضرور معائنہ کروانا چاہیے۔اگر کوئی شخص معدے کی تکلیف کا شکار ہے تو معالج اسے سال میں کم از کم ایک مرتبہ اینڈواسکوپی اور کولون اسکوپی کروانے کا مشورہ دیتے ہیں۔
جناح اسپتال کے فزیشن کنسلٹنٹ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عمر سلطان نے سماء ڈیجیٹل کو بتایا کہ کوئی بھی فرد جس کی عمر 30 سے 40 سال ہوچکی ہو اور فیملی ہسٹری پازیٹو ہو یعنی اس کے والدین ذیابطیس، بلڈ پریشر، موٹاپا، دل اور گردوں کے امراض میں مبتلا ہوں۔
فاسٹنگ لیپڈ پروفائل، فاسٹنگ بلڈ شوگر،یوریا کرٹنن،جگر کے ٹیسٹ الیکٹرولائٹس، سی بی سی اور یورین ڈی آر ہر 6 ماہ یا ایک سال بعد لازمی کروائیں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ کولیسٹرول کا لیول کیا ہے، یورک ایسڈ کا لیول کتنا ہےاور جگر کا ای ایل ٹی لیول کیا ہے۔
یہ بھی چیک ہونا چاہیے کہ کہیں فیٹی لیور کی طرف تو نہیں جا رہے یا کولیسٹرول لیول اتنا بڑھا ہوا تو نہیں ہے کہ آگے چل کر ہائی بلڈ پریشر کا باعث بنے یا کولسیٹرول دل کی نالیوں کو باریک یا بند کردے جو فالج کے حملے کا باعث بنے یا دل کے عارضے میں مبتلا کردے۔
ہائی بلڈ پریشر ایک خاموش قاتل ہے جو انسان کی آنکھیں ، دل اور گردے متاثر کرتا ہے۔ تیس سال یا اس سے زائد عمر کے افراد جن کی فیملی ہسٹری میں یہ موذی بیماریاں موجود ہوں وہ ہر 6 ماہ یا ایک سال بعد یہ ٹیسٹ ضرور کروائیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر کسی کو یہ محسوس ہو کہ اس کے سر میں درد رہتا ہے، پٹھے کھنچے رہتے ہیں تو اپنا بلڈ پریشر ضرور مانیٹر کریں۔ فاسٹنگ بلڈ شوگر تو گھر پر ہر 2 ہفتے دن بعد چیک کرتے رہنا چاہیے۔
ڈاکٹر عمر سلطان نے بتایا کہ ہمارے ہاں غیر صحت مند طرز زندگی عام سی بات ہے، راتوں کو دیر تک جاگنا، صبح دیر سے اٹھنا، نیند کا پورا نہ ہونا، وقت پر ناشتہ نہ کرنا یا کھانا نہ کھانا اور غیر صحت مند کھانا یعنی مرغن غذا، بازاری کھانے، سافٹ ڈرنکس کا بے تحاشہ استعمال، فیکٹری پروسیسڈ فوڈ کا استعمال عام سی بات ہوگئی ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ نوجوانوں میں تمباکو نوشی کی شرح بڑھ رہی ہے، ورزش کو اپنی زندگی سے نکال دیا گیا ہے دیر دیر تک موبائل فون و دیگر گیجیٹس کا استعمال پاکستانیوں کو جواں سالی میں ان بیماریاں کا شکار کر رہا ہے جو دنیا میں 50 سال کے بعد ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر عمر سلطان نے کہا کہ اپنے لائف اسٹائل میں تبدیلی، چکنائی، چینی اور نمک کا استعمال کم کرکے ہارٹ اٹیک، فالج، رینل فیلیئر، موٹاپا اور ذیابطیس جیسے امراض سے بچا جا سکتا ہے۔
ہمارے ہاں ہوٹلنگ کا رجحان زیادہ ہے اور گوشت بہت زیادہ کھایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں یورک ایسڈ بڑھتا ہے اور جوڑوں، پاؤں کی ایڑیوں اور ہاتھوں میں درد ہوتا ہے۔
یورک ایسڈ سے بھی بلڈ پریشر بڑھتا ہے، یورک ایسڈ پتھری کا سبب بھی بنتا ہے اور یوریٹک اسٹون کی وجہ سے یورین ٹھیک سے پاس نہیں ہوتا اور گردوں کے افعال بھی متاثر ہوتے ہیں۔ نئی ریسرچ کے مطابق ہائی لیول آف یورک ایسڈ ہارٹ اٹیک کا بھی سبب بنتا ہے۔
یہ تمام میٹابولک ڈس آرڈرز جن میں ہائی کولیسٹرول، ہائی یورک ایسڈ اور ہائی شوگر لیول شامل ہیں ہمارے تمام اہم اعضاء متاثر کرسکتے ہیں۔