جنرل بپن راوت کاہیلی کاپٹرحادثہ بھارتی فوج کی نااہلی ہے،رپورٹ
بھارتی میڈیا رپورٹ نے جہاں ایم آئی 17 ملٹری ہیلی کاپٹر حادثے پر چند سوالات اٹھادیے ہیں وہاں چینی سرکاری بیانیے کےلیے مشہور اخبار گلوبل ٹائم نے چینی ماہرین کے رائے سے مرتب کردہ رپورٹ میں بھارتی فوج اور خصوصاً ایئرفورس میں آپریشنل سرگرمیوں میں موجود نقائص کی نشاندہی کردی ہے۔
انڈیا ٹوڈے نے اپنی ایک رپورٹ میں چند سوالات اٹھائے جس پر ایم آئی 17 کے ایک سابق پائلٹ سے بھی استفسار کیا گیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق کیا جنرل بپن راوت کا ہیلی کاپٹر بجلی کی تاروں سے ٹکرانے کے باعث تباہ ہوا؟ ہیلی کاپٹر جب حادثے کا شکار ہوا تو وہ کتنی اونچائی پر محو پرواز تھا؟ رپورٹ میں سوال اٹھایا گیا کہ ہیلی کاپٹر کے حادثے کی وجہ کیا تھی؟ کیا ٹیکنیکل خرابی تھی جس کی وجہ سے ہائی پروفائل سواری پر مشتمل ملٹری ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہوا؟
سابق ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر کے پائلٹ امیتابھ رنجن نے حادثے کی بڑی وجہ موسم کی خرابی کو قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہیلی کاپٹر جس علاقے میں حادثے کا شکار ہوا وہ پہاڑی علاقہ ہے جہاں اکثر موسم خراب رہتا ہے۔ امیتابھ رنجن کا مزید کہنا تھا کہ ہیلی کاپٹر حادثے کی دوسری وجہ تکنیکی خرابی ہوسکتی ہے۔
تاہم چینی اخبار گلوبل ٹائم نے چینی ماہرین کی رائے پر مبنی رپورٹ میں بظاہر ان ہی سولات کے ساتھ ہیلی کاپٹر حادثے کی مختلف ممکنہ وجوہات پر بات کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ہیلی کاپٹر کو حادثے سے بچایا جا سکتا تھا اگر موسم بہتر ہونے تک پرواز میں تاخیر ہوتی، پائلٹ نے زیادہ احتیاط یا مہارت سے پرواز کی ہوتی یا زمینی عملے نے ہیلی کاپٹر کی بہتر دیکھ بھال کی ہوتی۔
رپورٹ کے مطابق حادثے نے ایک بار پھر بھارتی فوج کی جنگی تیاریوں کی کمی کو بے نقاب کر دیا۔
رپورٹ کے مطابق یہ پوری ہندوستانی فوج میں ایک عمومی مسئلہ ہے بشمول چین ہندوستان سرحدی علاقوں میں تعینات ہندوستانی فوجیوں کے جو اشتعال انگیز حرکتیں شروع تو کرتے رہتے ہیں لیکن جب حقیقی معرکہ آرائی شروع ہوتی ہے تو پھر بھارتی فوج کو ہمیشہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
چینی فوجی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بپن راوت کا کردار ہندوستان کی فوج، بحریہ اور فضائیہ میں تضادات کو دور کرنا اور فوج کو جدید بنانے کے اقدام میں ان افواج کو مربوط کرنا تھا۔ ان کی موت ممکنہ طور پر ہندوستانی فوج کی جدت طرازی کو درہم برہم کر دے گی۔
بدھ کے روز ہیلی کاپٹر حادثے میں ہندوستان کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف کی موت نے نہ صرف ہندوستانی فوج کے نظم و ضبط اور جنگی تیاریوں کی کمی کو بے نقاب کیا بلکہ ملک کی فوجی جدیدیت کو بھی ایک زبردست دھچکا پہنچایا جو طویل عرصے تک رہ سکتا ہے۔
ہندوستانی فضائیہ سے وابستہ ایک Mi-17V5 ہیلی کاپٹر حادثہ جس کے نتیجے میں اس میں سوار 14 میں سے 13 افراد ہلاک ہو گئے، جن میں دفاعی سربراہ جنرل بپن راوت بھی شامل تھے۔ ہندوستانی میڈیا رپورٹس نے قیاس کیا ہے کہ اس کی وجہ دھند کا موسم، بجلی کی لائنوں میں الجھنا، مکینیکل خرابی یا غلط اونچائی ہو سکتی ہے جس پر ہیلی کاپٹر نے اترنا شروع کیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ تمام ممکنہ وجوہات روسی ساختہ ہیلی کاپٹر کے بجائے انسانی عوامل کی طرف اشارہ کرتی ہیں کیوں کہ ایم آئی 17 سیریز کے ہیلی کاپٹر دوسرے ممالک بڑے پیمانے پر استعمال کرتے ہیں۔
دو انجن والے اس ہیلی کاپٹر کا شمار دنیا کے جدید ترین ٹرانسپورٹ ہیلی کاپٹروں میں ہوتا ہے، اس ہیلی کاپٹر کو سمندری موسم اور صحرائی حالات میں پرواز کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے اور یہ فوجیوں کے علاوہ اسلحہ لے جانے، فائر سپورٹ، گشت اور تلاش اور بچاؤ کے کاموں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
بیجنگ میں مقیم ایک فوجی ماہر وی ڈونگ سو نے جمعرات کو گلوبل ٹائمز کو بتایا کہ ایم آئی 17 وی 5 ایم آئی 17 کا ایک بہتر ورژن ہے اور یہ زیادہ طاقتور انجنوں اور جدید الیکٹرانک آلات سے لیس ہے جو اسے زیادہ قابل اعتماد بناتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ہندوستانی فوج بہت سی اقسام کے ہیلی کاپٹر چلاتی ہے جن میں مقامی طور پر تیار کردہ، غیر ملکی ٹیکنالوجی کی منتقلی کے ساتھ مقامی طور پر تیار کردہ، امریکا اور روس سے درآمد کیے جانے والے ہیلی کاپٹر شامل ہیں اور اس مختلف نوعیت کی مشینوں سے بھارتی ایئرفورس کےلیے لاجسٹک سپورٹ اور دیکھ بھال میں مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
گلوبل ٹائم کے مطابق ہندوستان ایک ڈھیلے اور غیر نظم و ضبط کے فوجی کلچر کے لیے جانا جاتا ہے اور ہندوستانی فوجی اکثر معیاری آپریٹنگ طریقہ کار اور ضوابط پر عمل نہیں کرتے ہیں۔
مبصرین کے مطابق پچھلے کئی حادثات کی وجوہات بشمول سن 2019 میں ہندوستان کے طیارہ بردار بحری جہاز میں لگنے والی آگ اور سن 2013 میں ایک ہندوستانی آبدوز پر ہونے والا دھماکا، ان سب کی وجہ انسانی غلطی بنی۔

دھند، بجلی کی لائنوں میں الجھنا،مکینیکل خرابی، غلط اونچائی یا گراؤنڈ اسٹاف کی کوتاہی؟
سماء ڈیجیٹل نے ہندوستان اور چینی ماہرین کے رائے پر مبنی دونوں ممالک کے میڈیا کی رپورٹس کی حقیقت جاننے کے لیے پاکستان ایئرفورس میں 35 سال تک خدمات سرانجام دینے والے ریٹائرڈ ایئروائس مارشل فیض امیر سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی۔
ریٹائرڈ ایئروائس مارشل فیض امیر نے سماء ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ موسم کی خرابی ممکنہ وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن یہاں عینی شاہدین کے بیانات اہم ہوں گے اور یہ دیکھنا ضروری ہوگا کہ ہیلی کاپٹر کو اونچائی پر آگ لگی تھی یا گرنے کے بعد ہیلی کاپٹر کو آگ نے لپیٹ میں لے لیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اگر آگ انچائی پر لگی ہو تو بجلی کی تاروں والی بات درست نہیں ہوسکتی جہاں موسم کی بات ہے تو اس حوالے سے اس دن کے موسم کا پتہ لگانا بھی مشکل نہیں ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کے حادثات میں اکثر ہیومن ایرر کو رد نہیں کیا جاسکتا اور یہ اکثر اس صورت میں ہوتا ہے جب پائلٹ کو خود پر حد سے زیادہ خود اعتمادی ہو۔
گراؤنڈ اسٹاف کی ممکنہ غلطی کے حوالے سے ریٹائرڈ ایئروائس مارشل فیض امیر کا کہنا تھا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ گراؤنڈ اسٹاف نے خراب موسم کی نشاندہی کی ہو مگر بعض اوقات انسانی نیچر کے مطابق آفیسرز کہتے ہیں چلو چلتے ہیں کچھ نہیں ہوگا لہذا اس صورت میں پھر اسٹاف کا قصور نہیں رہتا۔
بپن راوت کی ہلاکت سے کیا بھارتی فوج میں اصلاحات کو دھچکا لگ گیا؟
ریٹائرڈ ایئروائس مارشل فیض امیر چینی ماہرین کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جنرل بپن راوت بھارت کے ایک تجربہ کار جنرل تھے جن کا مودی حکومت کے ساتھ بھی قریب ترین تعلق تھا اور ان کی موت سے بھارتی فوج میں جاری اصلاحات کو یقینا دھچکا لگا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اصلاحات ان کا ایک ذاتی وژن تھا اور یہ اس بات پر منحصر ہے کہ کون کس حد تک اپنے اس وژن پر یقین کرتا ہے تاہم بپن راوت کو اپنے وژن پر اعتماد تھا اور وہ اسی کے لیے کوشاں تھے مگر اب ان کی غیرموجودگی میں اس منصوبہ بندی کو کس حد قابل عمل بنایا جاسکتا ہے یہ بلاشبہ ایک مشکل کام ہوگا۔
فیض امیر نے کہا کہ سابق ایئر چیف مصحف علی میر کی شہادت کے وقت بھی حادثے کی وجہ پائلٹ کی غلطی تھی۔
یاد رہے کہ 20 فروری 2003 کو سابق ایئر چیف مصحف علی میر جو اس وقت پاکستان ایئر فورس بیس کوہاٹ کے پری پریڈ ٹریننگ اسکول کے سالانہ انسپکشن پرجار رہے تھے کہ ان کا طیارہ کوہاٹ کے قصبہ گھمبٹ میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ حادثے میں طیارے میں موجود ایئر چیف مصحف علی میر کے علاوہ ان کی اہلیہ اور پاکستان ایئر فورس کے اعلیٰ افسران سمیت 17 جوان شہید ہو گئے تھے۔
کیا بھارتی فوج فضائی اثاثے سنبھالنے کے معاملے میں کمزور ہے؟
گلوبل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق انڈین ایئرفورس کے پاس مقامی طور پر تیار کردہ غیر ملکی ٹیکنالوجی کی منتقلی کے ساتھ مقامی طور پر تیار کردہ اور امریکہ و روس سے درآمد شدہ جہاز اور ہیلی کاپٹرز میں بیک وقت لاجسٹک سپورٹ اور دیکھ بھال میں مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
ریٹائرڈ ایئروائس مارشل فیض امیر کا کہنا ہے کہ یہ بات100 فیصد درست ہے کیوں کہ لاجسٹک کی ایک الگ منجمنٹ ہوتی ہے لیکن اگر آپ کے پاس تین چار قسم کی مشینری ہوں تو ایسی صورت میں اس کی ڈیلیوری مشکل ہوجاتی ہے کیوں کہ اس کے لیے الگ الگ مین پاور اور ٹیکنیکل اسٹاف کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہیلی کاپٹر کے بیسوی فیلڈز ہوتی ہے اور اس کے لیے علمدرآمد کا ایک موزوں ذریعہ ہونا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی فوج کے پاس موجود مذکورہ ہیلی کاپٹر کے پچھلے 10 سالوں میں 21 حادثات ہوچکے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس مشین کو کیری کرنے میں انڈین فوج کو مشکلات درپیش ہیں۔
کیا بھارتی فوج میں نظم و ضبط کے مسائل موجود ہیں؟
ایئروائس مارشل فیض امیر نے چینی ماہرین کی انڈین فوج میں ڈسپلن کے مسائل والی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کہا کہ انہیں اس قسم کی کوئی اطلاعات نہیں ملی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جنرل بپن راوت کے ہلاکت کے حوالے مختلف سازشی نظریات پر مبنی اطلاعات بھی گردش کررہی ہیں تاہم اس حوالے سے آفیشل رپورٹ کے سامنے آنے اور اس کے تجزیہ سے قبل کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔
بپن راوت کی ہلاکت اور کنسپریسی تھیوریز
جنرل بپن راوت کو پیش آئی حادثاتی موت بعد سوشل میڈیا پر بھارتی صارفین سازشی نظریات کو فروغ دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسے افراد کا خیال ہے کہ یہ حادثہ بھارتی فوج میں اعلیٰ سطح پر پائے جانے والے اختلافات کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔
یاد رہے کہ جولائی 2021 میں بپن راوت نے گلوبل کاؤنٹر ٹیررازم کونسل کے زیر اہتمام ایک تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ فضائیہ کی ضرورت اس لیے ہے کہ وہ بری فوج کو سپورٹ فراہم کرے اور یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ فضائی فورس مسلح افواج کا ایک معاون حصہ رہے گا جیسے کہ آرٹلری سپورٹ، انجینیئرنگ سپورٹ اور جنگجو بازو ہوتے ہیں۔
تاہم بھارت کے اس وقت کے ائیر چیف مارشل راکیش کمار سنگھ بہادریہ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بپن راوت کی بات سے اختلاف کیا تھا۔ گو انہوں نے راوت کا نام لیے بغیر یہ کہا تھا کہ فضائیہ صرف ایک سپورٹنگ ونگ نہیں بلکہ اس کا کردار اور ذمہ داریاں اس سے کہیں زیادہ وسعت کی حامل ہیں۔
ان دنوں سوشل میڈیا پر یہ بپن راوت اور راکیش کمار والی بحث پھر گرم ہے اور صارفین اس حوالے سے ٹوئٹ کررہے ہیں اور مختلف تھیوریز گردش کر رہی ہیں۔
اس معاملے پر بھارتی حکومت کیا کہتی ہے؟
بھارتی حکومت کی جانب سے اس معاملے پر کوئی حتمی بات ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے۔ اسمبلیوں کے فلور پر بھی صرف واقعہ کی تفصیلات بتائی گئی ہیں جبکہ حتمی وجوہات پر کوئی روشنی نہیں ڈالی گئی ہے۔ تاہم یہ ضرور بتایا گیا ہے کہ حادثے سے 7 منٹ قبل ہیلی کاپٹر کا زمین سے رابطہ منقطع ہوگیا تھا۔ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا کہنا ہے کہ واقہ کی انکوائری ابھی جاری ہے۔

جنرل بپن راوت کون تھے؟
جنرل بپن راوت نے جنوری 2019 میں بھارت کے پہلے چیف آف ڈیفنس اسٹاف کا چارج لیا تھا۔ وہ ڈپارٹمنٹ آف ملٹری افئیرزکے سربراہ بھی تھے۔
بپن راوت 2016 سے 2020 تک بھارتی آرمی چيف رہے جس کے بعد انھيں پہلا چيف آف ڈيفنس اسٹاف مقرر کيا گيا تھا۔
بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد 31 دسمبر 2019 کو ریٹائر ہوئے تھے لیکن مودی سرکار نے انہیں بھارت کی مسلح افواج کا پہلا چیف آف ڈیفنس اسٹاف مقرر کیا تھا۔
اس سے قبل بھارت میں چیف آف ڈیفنس اسٹاف کا عہدہ نہیں ہوتا تھا اور خاص طور پر یہ عہدہ اس لیے بنایا گیا تھا تاکہ جنر بپن راوت فوج کی اعلیٰ قیادت کا حصہ رہ سکیں۔
جنرل بپن راوت کا تعلق بھارتی ریاست اتراکھنڈ کے ایک ایسے خاندان سے ہے جس کی کئی نسلوں نے انڈین فوج میں خدمات انجام دی ہیں۔ بپن راوت فروری 2015 میں بھی ناگالینڈ میں چیتا ہیلی کاپٹر کے حادثے میں بال بال بچے تھے۔
جنرل بپن راوت نے دسمبر 1978 میں انڈین آرمی کی 11 گورکھا رائفلز کی 5ویں بٹالین میں شمولیت اختیار کی تھی۔ بپن راوت چین اور پاکستان دونوں سرحدوں پر مختلف عہدوں پر تعینات رہ چکے ہیں۔
میانمار میں 2015 میں ریاست ناگالینڈ سے منسلک عسکریت پسندوں کے خلاف سرحد پار آپریشن کا سہرا بھی جنرل راوت کے سر باندھا جاتا ہے۔
دسمبر 2016 میں حکومت ہند نے انھیں دو سینیئر لیفٹیننٹ جنرلز، پروین بخشی اور پی ایم ہارس پر فوقیت دیتے ہوئے ملک کی برّی فوج کا 27 ویں چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا تھا۔
چالیس سال سے زیادہ کے کیریئر کے دوران اُنھیں متعدد اعزازات سے بھی نوازا گیا۔