گورنرسندھ نے لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل اعتراض لگاکر واپس کردیا
گورنر سندھ عمران اسماعیل نے گزشتہ ماہ سندھ اسمبلی سے منظور کئے گئے لوکل گورنمنٹ (ترمیمی) بل کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اسے اسمبلی کو واپس بھیج دیا تاکہ وہ بل میں شامل کم از کم نو نکات پر نظرثانی کرے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی زیر قیادت صوبائی حکومت کی جانب سے اس اقدام کی توقع کی جارہی تھی، جو 2013ء کے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں اہم ترامیم کو آگے بڑھا رہی ہے۔
سندھ اسمبلی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ بغیر کسی تبدیلی کے اس بل کو دوبارہ منظور کرلے۔
البتہ صوبے میں اپوزیشن جماعتیں ان ترامیم کیخلاف احتجاج کررہی ہیں جن کے ذریعے شہری حکومت سے کئی محکمے چھین کر صوبائی حکام کے ماتحت کئے جارہے ہیں۔
گورنر سندھ نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء میں متعارف کرائی گئی نو ترامیم پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ترامیم کیخلاف دلائل
۔1۔ گورنر نے ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز (ڈی ایم سیز) کو ٹاؤن سے تبدیل کرنے کے منصوبے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بغیر غور کیے ڈی ایم سیز کو ختم کرنے سے خدمات کی فراہمی، دائرہ اختیار، حدود، امن و امان اور محصولات کے معاملات میں رابطہ کاری کے مسائل پیدا ہونگے، باقی نظام اب بھی ریونیو دفاتر کے دائرہ اختیار کے مطابق کام کرتا ہے۔
۔2۔ گورنر عمران اسماعیل نے بھی کہا کہ کونسل کو "کسی بھی شخص" کو میئر، ڈپٹی میئر، چیئرمین یا کونسل کا وائس چیئرمین منتخب کرنے کی اجازت دینے سے لوگ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لئے بغیر میئر بن سکیں گے۔ انہوں نے تجویز دی کہ اس کے بجائے "ایوان سے کوئی بھی رکن" منتخب کیا جائے۔
۔3۔ گورنر نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کے شیڈول 5 میں ترمیم کی بھی مخالفت کردی۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ ترمیم میونسپل کارپوریشنوں کو غیر منقولہ پراپرٹی ٹیکس سے محروم کردیگی جس کے نتیجے میں میونسپل کارپوریشنز کیلئے شدید مالی بحران پیدا ہوجائے گا۔
۔4۔ عمران اسماعیل کا کہنا ہے کہ خفیہ رائے شماری سے ہارس ٹریڈنگ کی گنجائش پیدا ہوگی، میئر کا انتخاب شو آف ہینڈ ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے ہونا چاہئے۔
۔5۔ گورنر سندھ نے 2013ء کے ایکٹ کے سیکشن 10 میں ترمیم کو حلقہ بندیوں کو تبدیل کرنے کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیار کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترمیم شدہ سیکشن 10 یہ بتاتا ہے کہ حکومت، درج کی جانے والی وجوہات کی بناء پر، ذیلی دفعہ میں مذکورہ شرائط کو ختم کرسکتی ہے۔ عمران اسماعیل نے کہا کہ اس طرح کے اختیارات الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دائرہ کار میں آتے ہیں اور یہ ترمیم بالآخر انتخابات میں منصفانہ مقابلے اور غیر جانبداری کو متاثر کر سکتی ہے کیونکہ کسی مخصوص علاقے میں نشستوں کی تعداد میں اضافہ اور کمی جانبداری ہوگی۔
۔6۔ گورنر کا 2013ء کے ایکٹ کے سیکشن 15 میں ترمیم کے بارے میں کہنا ہے کہ درج ذیل شرط کو شامل کیا جا رہا ہے کہ میٹروپولیٹن علاقے میں کوئی علاقہ دیہی علاقہ نہیں سمجھا جائے گا۔ عمران اسماعیل کا کہنا ہے کہ اس سے زمین کی تبدیلی کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے، اس کے بجائے، دیہی اور زرعی اراضی کے تحفظ کیلئے کوئی دیہی علاقہ میٹروپولیٹن کارپوریشن کا حصہ نہیں ہونا چاہئے۔
۔7۔ ترمیم شدہ قانون کے تحت تشکیل شدہ کونسل کی مدت اس کے رکن کے حلف اٹھانے کی تاریخ سے 4 سال ہوگی۔ گورنر کا کہنا ہے کہ اس نے اصل شق کی جگہ لے لی ہے جہاں کونسل کی مدت پہلی میٹنگ کے بعد سے شروع ہونی تھی۔ انہوں نے اصل شق کی بحال کا مطالبہ کردیا۔
۔8۔ گورنر سندھ نے ترمیم شدہ قانون کے تحت نوٹیفکیشن کے ذریعے نظام الاوقات میں ترمیم کرنے کیلئے صوبائی حکومت کو دیئے گئے اختیار سے بھی اتفاق نہیں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے نوٹیفکیشن آئینی روح کے خلاف ہوں گے۔
۔9۔ آخری اعتراض اسپتالوں اور متعدد دیگر مقامی حکومتوں کے محکموں کو صوبائی حکومت کو منتقل کرنے پر ہے۔
اسپتال بشمول کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج، عباسی شہید اسپتال، سوبھراج میٹرنٹی ہوم، سرفراز شہید اسپتال، اسپینسر آئی اسپتال اور جذام اسپتال شامل ہیں۔
پیدائش، موت اور شادی کی رجسٹریشن، متعدی امراض پر قابو پانے، تعلیم بالغان، پرائمری ایجوکیشن، صحت اور زچگی کے مراکز، پرائمری ہیلتھ، ڈسپنسریاں، کھانے پینے کی اشیاء پر کنٹرول، دودھ کی فراہمی کی مہم اور لازمی تعلیم سے متعلق محکمے بھی سندھ حکومت کو منتقل کئے جارہے ہیں۔
عمران اسماعیل کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدام سے لوکل گورنمنٹ کے ادارے مزید کمزور ہوں گے جو کہ آئینی دفعات کی روح کے خلاف ہے۔ گورنر سندھ نے صوبائی اسمبلی سے بل پر دوبارہ غور کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
آگے کیا ہوگا؟
سندھ اسمبلی کے سیکریٹری عمر فاروق نے سماء ڈیجیٹل کو بتایا کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل 2021ء دوبارہ غور کیلئے سندھ اسمبلی میں آئے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ بل میں ترمیم کرنا قانون سازوں کے ہاتھ میں ہے، چاہے وہ ایسا کریں یا نہ کریں، بل کو بغیر کسی تبدیلی کے پاس کرنا بھی اسمبلی کا اختیار ہے۔
اگر بغیر کسی تبدیلی کے بل منظور کیا جاتا ہے تو بل کو حتمی منظوری کیلئے دوبارہ گورنر سندھ کو بھیجا جائے گا اور اگر گورنر 10 دن کے اندر اس کی منظوری نہیں دیتے تو یہ بل قانون بن جائے گا اور تصور کیا جائے گا کہ گورنر نے منظوری دیدی ہے۔
گورنر سندھ کے پرنسپل سیکریٹری کے طور پر خدمات انجام دینے والے سینئر ریٹائرڈ بیوروکریٹ محمد حسین سید نے بھی سیکریٹری سندھ اسمبلی سے اتفاق کیا ہے۔
محمد حسین سید کا کہنا ہے کہ صوبائی اسمبلی گورنر سندھ کے واپس بھیجے گئے بل پر دوبارہ غور کرنے یا بغیر کسی تبدیلی کے اسے دوبارہ پاس کرنے کا مکمل اختیار رکھتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئین کے آرٹیکل 116(3) کے مطابق گورنر سندھ کے پاس زیادہ اختیار نہیں، وہ صرف بل کو صوبائی اسمبلی کو واپس بھیج سکتے ہیں اور وہ پہلے ہی اپنا استحقاق استعمال کرچکے ہیں۔