توہین رسالتﷺاورمذہب کے الزامات، تحقیقات پرمقتولین اکثربیگناہ ثابت ہوئے

پاکستان میں توہین مذہب یا رسالت ﷺ کے الزام میں قتل کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں، تاہم ان میں سے اکثر تحقیقات کے بعد جھوٹے اور مقتولین بے گناہ نکلے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب ملک میں توہین مذہب اور توہین رسالت ﷺ کے حوالے سے قوانین موجود ہیں تو پھر الزام کی بنیاد پر کسی کو بغیر تحقیق اور تصدیق کے سرعام بدترین تشدد سے قتل کرنا جائز کیوں سمجھا جاتا ہے؟۔ جب کہ ان پرتشدد واقعات پر مذہبی رہنماؤں کی بھی مذمت سامنے آتی ہے۔

پاکستان میں اس سے پہلے بھی مشتعل گروہوں کے ہاتھوں مذہب کے نام پر تشدد کے واقعات میں صرف غیر مسلم ہی نہیں بعض اوقات مسلمانوں کو بھی قتل کیا گیا ہے۔ ایسے ہی چند دل سوز واقعات ذیل میں دیئے گئے ہیں۔ جس میں پرتشدد اور مشتعل ہجوم نے بغیر تصدیق اور تحقیق لوگوں کی سرعام جانیں لیں اور بعد ازاں تفتیش اور تحقیقات میں مقتولین بے گناہ ثابت ہوئے۔

سنہ 2012
2012 میں بہاولپور میں ذہنی مسائل کے شکار ایک شخص کو مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں پولیس اسٹیشن سے نکال کر سرعام آگ لگا دی۔

سنہ 2013
مارچ 2013 میں 7 ہزار افراد پر مشتمل مشتعل ہجوم نے بادامی باغ لاہور کی جوزف کالونی میں مسیحی برادری کے 150 گھروں، 18 دکانوں اور دو گرجا گھروں کو آگ لگا دی۔ واقعہ ایک مسیحی شہری پر توہین مذہب کے الزام کے بعد پیش آیا تحقیقات پر یہ واقعہ ذاتی رنجش کا نتیجہ نکلا۔

سنہ 2014
سال 2014 میں پنجاب میں مشتعل ہجوم نے ایک مسیحی جوڑے کو توہین مذہب کے الزام میں تشدد کرکے جان سے مار ڈالا اور سفاکی سے ان کی لاش کو آگ لگا دی۔ بعد ازاں تحقیقات میں مقتولین پر الزام غلط ثابت ہوا اور مجرمان کو سزائے موت سنائی گئی۔

سنہ 2017
اپریل 2017 میں خیبر پختونخوا میں عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشعال خان کو اسی یونیورسٹی کے طلبہ نے توہین مذہب کا الزام لگا کر مشتعل ہجوم کی صورت میں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہاں تک کہ اس کی جان چلی گئی، تحقیقات میں توہین مذہب کے الزامات جھوٹے نکلے۔

سال 2020
اسی طرح پشاور میں گزشتہ سال 29 جولائی کو عدالت میں جج کے سامنے ملزم فیصل عرف خالد نے توہین مذہب کے الزام میں طاہر احمد نسیم کو کمرہ عدالت میں گولی مارکرہلاک کیا، جس کے بعد پولیس اہلکاروں نے فائرنگ کرنے والے شخص کو گرفتار کیا اور پھر اُسے کے ساتھ سیلفی بنائی، مذکورہ اہلکاروں کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی عمل میں لائی گئی تھی۔

اگست 2020 میں رحیم یار خان میں مشتعل ہجوم نے ایک مندر پر حملہ کردیا اور املاک کو نقصان پہنچایا۔

نومبر 2020 میں خوشاب میں بینک منیجر کو گارڈ نے توہین مذہب کا الزام لگا کر گولی ماردی۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ گارڈ نے یہ قتل ذاتی رنجش کی بنا پر کیا۔

رواں سال کے واقعات
نومبر 2021 میں مشتعل ہجوم نے چارسدہ پولیس اسٹیشن کو آگ لگا دی۔ تھانے میں ایک شخص موجود تھا جس پر توہین مذہب کا الزام تھا اور مشتعل ہجوم کا مطالبہ تھا کہ پولیس تحویل میں موجود اس شخص کو ان کے حوالے کیا جائے۔

اس سے قبل رواں سال 2 جولائی کو پنجاب کے علاقے صادق آباد میں بینک مینیجر کو پولیس اہلکار نے توہین مذہب کے الزام میں فائرنگ کر کے قتل کیا، ملزم اس سے قبل تین سال جیل کی سزا کاٹ کر رہا ہوا تھا۔