داعش کا سربراہ امراللہ صالح کا چیف سیکیورٹی گارڈ نکلا
امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ جون 2020 سے داعش کے نیا سربراہ ثناء اللہ غفاری ہے جو شہاب مہاجر کے نام سے بھی مشہور ہے۔ ثناءاللہ غفاری کے پاس تمام کارروائیوں کی منظوری اور شدت پسند تنظیم کے مالی معاملات کا بھی اختیار ہے۔
افغان صحافیوں کے مطابق شہاب مہاجر کے شناختی کارڈ کے مطابق وہ گزشتہ دور حکومت میں نائب صدر اول امراللہ صالح کا خصوصی گارڈ تھا جبکہ اسے سن 2017 میں ہتھیاروں کی منتقلی کا لائسنس بھی دیا گیا تھا۔
امریکی حکومت کے مطابق ثناء اللہ غفاری 9 مئی سے داعش خراسان گروپ کی قیادت کر رہا ہے۔
Sanaullah Ghafari, AKA Shahab al-Muhajir, is ISIS-K’s current overall emir. He was appointed by the ISIS core to lead ISIS-K in June 2020. Ghafari is responsible for approving all ISIS-K operations throughout Afghanistan and arranging funding to conduct operations. pic.twitter.com/fBcuua5avZ
— State Dept CT Bureau (@StateDeptCT) November 22, 2021
امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے بیان کے بعد امراللہ صالح نے اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر لکھا کہ ثناء اللہ غفاری کا تعلق حقانی نیٹ ورک سے تھا تاہم وہ اسے گزشتہ دور حکومت میں اسلحہ سپلائی لائسنس جاری کیے جانے اور امراللہ صالح کے سیکیورٹی گارڈ رہنے والی باتوں کی تردید نہیں کرسکے جو سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہیں ہیں۔
سابقہ حکومت میں امراللہ صالح کو کابل کے سیکیورٹی کا ذمہ دار بنایا گیا تھا اور عین اسی وقت ثناء اللہ غفاری ان کی سیکیورٹی کے ساتھ ساتھ داعش کے لیے بھی کام کررہا تھا اور اسی دوران مختلف حملوں میں بھی ملوث رہا جس میں مختلف پبلک مقامات پر متعدد حملے شامل ہیں۔
SAM obtained a weapons license from interior ministry’s counter- Terrorism department on Friday 10, March, 2017. pic.twitter.com/oifQ3WOqRJ
— BILAL SARWARY (@bsarwary) November 23, 2021
خیال رہے کہ مساجد اور بازاروں میں ہونے والے تمام حملوں سے طالبان لاتعلقی کا اعلان کرتے رہے ہیں تاہم امراللہ صالح کا ہر دفعہ یہ اصرار ہوتا تھا کہ اس میں طالبان ملوث ہیں جو بظاہر داعش اور سابقہ افغان حکومت یا امراللہ صالح کے گٹھ جوڑ کی نشاندہی کررہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کابل میں سکیورٹی کی ذمہ داری صالح کو سونپنا اور داعش کی ذمہ داری اس کے خصوصی گارڈ کو سونپنا اور پھر کابل میں شہری تنصیبات پر حملوں میں شدت لانا پچھلی حکومت اور داعش کے درمیان مضبوط تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔
طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ ثناء اللہ کے اب بھی پنج شیری مزاحمتی گروپ سے براہ راست روابط ہیں، یہ مشترکہ منصوبے بنا رہے ہیں اور انتشار پیدا کر نے کی کوشش کررہے ہیں۔
ثناء الله د جبارخان زوی د لنډغر امرالله صالح ساتونکی ؤ چې د نوموړي په مستقيم کوشش د خوارجو تر ولايت پورې ورسيد. لومړی بريد یې د کابل په هوايي ډګر باندې له هندي استخباراتو په مالي او لوجستیکي مرسته ترسره کړ او وروسته يې په څو مسجدونو کې چاودنې وکړې. pic.twitter.com/jXF1V4pCNb
— Jahid Jalal | جاهد جلال (@A_Jahid_Jalal) November 23, 2021
واضح رہے کہ اگست کے وسط میں طالبان کی کابل پر برسر اقتدار آنے کے بعد سے لے کر اب تک داعش متعدد بڑے حملوں جبکہ درجنوں چھوٹے حملوں اور بم دھماکوں میں ملوث رہی ہے۔
امریکی انخلاء سے چند دن قبل کابل ایئرپورٹ پر داعش کے حملے میں 100 سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے تھے جبکہ 9 اکتوبر کو افغانستان کے شہر قندوز کی مسجد اخوندزاد ميں نماز جمعہ کے دوران ہونے والے دھماکے میں تقریباً 100 افراد شہید ہوئے تھے۔
شدت پسند تنظیم نے اس کے ایک ہفتے بعد یعنی 15 اکتوبر کو افغانستان کے دوسرے بڑے شہر قندھار کو نشانہ بنایا جہاں نماز جمعہ کے دوران مسجد میں دھماکے کے نتیجے میں 40 افراد جاں بحق جبکہ 70 نمازی زخمی ہوگئے تھے۔
تین نومبر کو کابل میں سردار محمد داؤد خان ملٹری اسپتال پر حملے میں کم از کم 25 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
اس وقت افغانستان کے بیشتر حصوں میں داعش کے خلاف طالبان کا آپریشن بھی جاری ہے جبکہ حالیہ دنوں میں داعش کی مختلف کارروائیوں میں متعدد طالبان جنگجو بھی شہید ہوچکے ہیں۔ اگرچہ طالبان ترجمان متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ داعش ہمارے لیے کوئی خظرہ نہیں ہے تاہم مسلسل کارروائیوں کے بعد اب لوگوں کا خیال ہے کہ افغانستان میں جنگ ختم نہیں ہوئی بلکہ طالبان کو ایک اور چیلنج کا سامنا ہے۔
سابق افغان نیشنل آرمی کی داعش میں شمولیت
امریکی اخبار وال اسٹريٹ جرنل نے ایک رپورٹ میں ميں دعویٰ کيا ہے کہ افغانستان سے امريکا کے جانے کے بعد سابق افغان فوجی اورجاسوس بے يارومددگار ہونے کے باعث اب داعش ميں بھرتی ہورہے ہيں۔
رپورٹ کے مطابق افغان انٹیلی جنس سروس کے کچھ سابق ارکان اور ایلیٹ فورس اہلکار جنہیں امریکا نے تربیت دی تھی اب داعش میں شامل ہوگئے ہیں۔ دہشت گرد گروہ میں شامل ہونے والے منحرف سابق فوجیوں کی تعداد نسبتاً کم ہے لیکن اس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ داعش میں نئے بھرتی ہونے والے آئی ایس آئی ایس کو انٹیلی جنس معلومات جمع کرنے اور جنگی تکنیکوں میں اہم مہارت رکھتے ہیں۔ یہ سابق فوجی طالبان کی بالادستی کا مقابلہ کرنے کے لیے شدت پسند گروپ کی صلاحیت کو بڑھا سکتے ہیں۔
افغانستان کی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ رحمت اللہ نبیل نے کہا کہ کچھ علاقوں میں داعش افغان سیکیورٹی اور دفاعی فورسز کے سابق ارکان کے لیے بہت پرکشش تنظیم بن گئی ہے۔ خاص طورپر ایسے فوجی جو ملک نہیں چھوڑ سکے وہ داعش کی صفوں میں شامل ہوگئے ہیں۔
Left behind after the U.S. withdrawal and hunted by the Taliban, some of Afghanistan’s former spies and soldiers trickle to join the only force currently challenging the country’s new rulers: Islamic State. My latest from Kabul in @WSJ https://t.co/aNRZ2z5Aum
— Yaroslav Trofimov (@yarotrof) October 31, 2021
داعش خراسان کب بنی؟
افغانستان اور پاکستان میں داعش خراسان خاصے عرصے سے سرگرم عمل ہے اور پچھلے کچھ برسوں میں اس نے دونوں ممالک میں شدید ہلاکت خیز حملے کیے ہیں۔ ان کی کارروائیوں کے دوران مساجد، مزارات، عوامی مقامات اور اسپتالوں تک کو نہیں بخشا گیا۔
دہشت گرد تنظیم داعش خراسان کی داغ بیل سن 2014 میں کنڑ افغانستان میں اس وقت ڈالی گئی جب اس سے کچھ عرصہ قبل شام میں بنی مرکزی تنظیم کی جانب سے خلافت کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا۔ افغانستان، پاکستان، ایران اور وسط ایشیائی ممالک پر مبنی قدیم علاقے خراسان کی نسبت سے اس داعش کی اس شاخ کا نام دولت اسلامیہ خراسان رکھا گیا تھا۔
دہشت گردی اور شدت پسندی کے موضوع پر دسترس رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ داعش خراسان کی بنیاد رکھنے والوں میں اہم کردار ان پاکستانی طالبان کا تھا جو پاکستان آرمی سے جان بچا کر افغانستان میں جا چھپے تھے۔
اس گروہ نے شروع میں تو خود کو سرحدی علاقوں تک محدود رکھا لیکن بعد میں وہ شمال مشرقی افغانستان میں بالخصوص کنڑ، ننگرہار اور نورستان کے صوبوں میں بھی اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق داعش خراسان بنیادی اراکین 500 ہیں جبکہ اس کے لیے کام کرنے والے شدت پسند ہزاروں میں ہوسکتے ہیں۔