نصاب میں صحت کے اسباق شامل کرنےکی کوششیں جاری ہیں، ڈاکٹر فیصل سلطان
تحریر: محمد وقار بھٹی
وزیراعظم پاکستان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا ہے کہ یکساں تعلیمی نصاب میں صحت کے اسباق شامل کرنے کے لیے وزارت تعلیم سے بات چیت جاری ہے۔
پاکستان سوسائٹی فار اویرنیس اینڈ کمیونٹی ایمپاورمنٹ (پیس) اور ڈسکورنگ ڈائبیٹیز پروجیکٹ تحت کراچی میں منعقدہ نیشنل ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ نصاب میں ورزش کی اہمیت، صحت مند خوراک، دانتوں کی صفائی، تمباکو اور منشیات کے استعمال کی تباہ کاریوں کے متعلق بچوں کو آگاہ کرنے سے ہم اپنی آنے والی نسلوں کو بیماریوں، معذوری اور قبل از وقت اموات سے بچا سکتے ہیں۔
معاون خصوصی برائے صحت کا کہنا تھا کہ ماضی میں متعدی امراض خصوصا ذیابطیس کے مرض پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے یہ مرض وبائی صورت اختیار کرگیا ہے لیکن وفاقی وزارت صحت نے اب ایک نیشنل ایکشن پلان بنا لیا ہے جس کے تحت ذیابطیس سمیت ذہنی صحت، کینسر اور ٹراما کئیر پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔
مصنوعی میٹھے مشروبات اور سگریٹ پر ٹیکس بڑھانے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر انہیں اس سلسلے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن وہ اس سلسلے میں کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں اور جلد ہی ایک ہیلتھ کنٹریبیوشن بل لایا جا رہا ہے جس کے مصنوعی میٹھے مشروبات تیار کرنے والی اور تمباکو کی انڈسٹری پر ٹیکس بڑھا کر حاصل شدہ رقوم کو صحت کے شعبے میں استعمال کیا جائے گا۔
ڈسکو رنگ ڈائبٹیز پروجیکٹ کی تعریف کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کرونا کی وبا کے بعد موبائل فونز کی رنگ ٹیونز ذریعے صحت کے پیغامات کے ذریعے لوگوں کے شعور اور معلومات میں اضافہ ہوا اور اب یہ رنگ ٹیونز صحت کے پیغامات عوام الناس تک پہنچانے کا ایک اہم ذریعہ بن رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈسکو رنگ ڈائبٹیز کی ہیلپ لائن کا نمبر موبائل فونز کی رنگ ٹونز کے ذریعے پورے ملک کے افراد تک پہنچا کر شوگر کے مرض کے حوالے سے آگاہی اور اس کی تشخیص کو بہت بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر فیصل سلطان نے مزید کہا کہ پاکستان میں ڈایبٹیز کی تشخیص اور علاج کے اخراجات اس وقت تک کم نہیں کیے جا سکتے جب تک اس سلسلے میں استعمال ہونے والے آلات اور ٹیکنالوجی مقامی طور پر تیار نہ کیے جائیں، مقامی سطح پر تشخیص کے آلات اور ٹیکنالوجی تیار کرنے کے لیے حکومت نے اسلام آباد میں سینکڑوں ایکڑ پر مشتمل اسپیشل ٹیکنالوجی زون قائم کیا ہے جہاں پر صحت کے شعبے میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی اور آلات کی تیاری شروع کی جائے گی تاکہ صحت کے شعبے میں درآمدات پر انحصار کم سے کم کیا جاسکے اور ملک میں علاج کی سہولتوں پر آنے والے اخراجات میں کمی لائی جاسکے۔

ذیابطیس کے مرض کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وزارت صحت اسلام آباد میں جلد ہی شوگر کے مرض سے بچاؤ اور جلد تشخیص کے حوالے سے ایک پائلٹ پروجیکٹ شروع کررہی ہے اور کوشش کی جا رہی ہے کہ مزید فنڈنگ حاصل کرکے اس پروجیکٹ کو ملک کے چاروں صوبوں اور دیگر علاقوں میں بھی شروع کیا جا سکے۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے بقائی انسٹیٹیوٹ آف ڈائیبیٹولوجی اینڈ اینڈوکرائنولوجی پروفیسر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کو مصنوعی میٹھے مشروبات اور تمباکو کی صنعتوں پر مزید ٹیکس لگا کے مزید رقم اکٹھی کرنی چاہیے جو کہ صحت کے شعبے میں بہتری کے لیے استعمال کی جائے۔
پروفیسر عبدالباسط نے کہا کہ پاکستان میں نرسوں اور زخموں کی مرہم پٹی کرنے والے افراد کی ٹریننگ کی ضرورت ہے تاکہ ڈایبٹیز کے نتیجے میں ہونے والے زخموں کی صحیح نگہداشت کے ذریعے ہزاروں افراد کو ٹانگیں کٹنے کے نتیجے میں معذوری سے بچایا جا سکے۔
پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی سے وابستہ کنسلٹنٹ اینڈوکرائنولوجسٹ پروفیسر تسنیم احسن کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے بچوں میں صحت مندانہ طرز زندگی اور متوازن غذا کے حوالے سے شعور بیدار کرنا ہوگا کیونکہ پاکستان کروڑوں لوگوں کو موذی امراض میں مبتلا ہونے کے بعد علاج کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔
عالمی یوم ذیابیطس کی مناسبت سے منعقدہ نیشنل ڈائیلاگ سے پروفیسر زمان شیخ، ڈسکورنگ ڈائبیٹیز کے پروجیکٹ مینیجر آغا صادق، جناح اسپتال کراچی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر شاہد رسول، ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر سعید قریشی، نامور نفسیات پروفیسر اقبال آفریدی، پی ایم اے کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر قیصر سجاد، پیس کے کنوینر محمد وقار بھٹی اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔