داعش کےحملوں میں شدت،فاتح کابل مولوی حمداللہ بھی ماردیے گئے

حمداللہ افغان صدارتی محل میں داخل ہونےوالے پہلےطالب رہنماتھے

کابل کے وسط میں واقع اہم ترین فوجی اسپتال پر منگل کو ہونے والے حملے میں فاتح کابل کے نام سے مشہور اہم طالب کمانڈر مولوی حمداللہ مخلص بھی جاں بحق ہوگئے۔ اس کارروائی میں فاتح کابل سمیت 25 افراد شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔

مولوی حمد اللہ وہ پہلے سینئر طالبان فوجی کمانڈر تھے جو دارالحکومت کابل کے سقوط کے دن افغان صدارتی محل میں داخل ہوئے تھے اور ان کی صدارتی محل میں اس وقت کی تصاویر قومی و بین الاقوامی میڈیا کے زینت بنی تھیں۔

مولوی حمد اللہ مخلص اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے سے قبل جنوبی افغانستان میں طالبان کے فوجی کمانڈر تھے تاہم واقعہ کے وقت وہ کابل ملٹری کور کی سربراہی کررہے تھے۔ افغان صحافیوں نے مخلص کی موت کو طالبان تحریک کے لیے بہت بڑا دھچکا قرار دیا ہے۔

حمد اللہ مخلص کا تعلق طالبان کے حقانی نیٹ ورک سے تھا اور کہا جارہا ہے کہ وہ مذکورہ گروپ کی عسکری حکمت عملی مرتب کرنے والے گروپ کے سربراہی بھی کرچکے ہیں۔

کابل میں سردار محمد داؤد خان ملٹری اسپتال پر حملے میں کم از کم 25 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے جس کی ذمہ داری داعش کی خراسان شاخ نے قبول کرتے ہوئے اپنے ٹیلی گرام چینل میں دعویٰ کیا کہ یہ حملہ اس کے 5 عسکریت پسندوں نے کیا۔

داعش خراسان کے مسلح جنگجوؤں نے یہ دھماکے داؤد خان ملٹری اسپتال کے داخلی دروازے کے پاس کیے۔ طالبان ترجمان نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر کی مدد سے طالبان خصوصی فورسز کو اسپتال کے احاطے پر اتارا گیا جس کے باعث حملہ آوروں کو اسپتال میں مزید آگے آنے سے روک دیا گیا۔

منگل کو ایک ٹوئٹ میں ذبیح اللہ مجاہد نے ابتدائی طور پر بتایا تھا کہ حملے میں 3 خواتین، ایک بچے اور تین طالبان کے مرنے کی اطلاع ہے، جب کہ 5 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

طالبان کے ایک سیکیورٹی اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرخبررساں ایجنسی  کو بتایا کہ کم از کم 25 افراد ہلاک ہوئے ہیں جب کہ زخمیوں کی تعداد 50 سے زائد ہے۔ تاہم سرکاری طور پر اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔

اگست کے وسط میں طالبان کی کابل پر برسر اقتدار آنے کے بعد سے لے کر اب تک یہ داعش کا پانچواں بڑا حملہ ہے۔

داعش نے اگست میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد مساجد اور دیگر اہداف پر متعدد حملے کیے ہیں 2017ء میں اسی اسپتال پر ایک حملے میں بھی 30 سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔

امریکی انخلاء سے چند دن قبل کابل ایئرپورٹ پر داعش کے حملے میں 100 سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے تھے جبکہ 9 اکتوبر کو افغانستان کے شہر قندوز کی مسجد اخوندزاد ميں نماز جمعہ کے دوران ہونے والے دھماکے میں تقریباً 100 افراد شہید ہوئے تھے۔

شدت پسند تنظیم نے اس کے ایک ہفتے بعد یعنی 15 اکتوبر کو افغانستان کے دوسرے بڑے شہر قندھار کو نشانہ بنایا جہاں انہوں نے نماز جمعہ کے دوران مسجد میں دھماکے کے نتیجے میں 40 افراد جاں بحق جبکہ 70 نمازی زخمی ہوگئے تھے۔

اس وقت افغانستان کے بیشتر حصوں میں داعش کے خلاف طالبان کا آپریشن بھی جاری ہے جبکہ حالیہ دنوں میں داعش کی مختلف کارروائیوں میں متعدد طالبان جنگجو بھی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اگرچہ طالبان ترجمان متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ داعش ہمارے لئے کوئی خظرہ نہیں ہے تاہم مسلسل کارروائیوں کے بعد اب لوگوں کا خیال ہے کہ افغانستان میں جنگ ختم نہیں ہوئی بلکہ طالبان کو ایک اور چیلنج کا سامنا ہے۔

افغانستان کے صوبے کنڑ اور ننگرہار جو داعش کے گڑھ سمجھے جارہے ہیں میں اس وقت طالبان اور داعش کے درمیاں شدید لڑائی جاری ہے اور وقتاً بوقتا داعش اور طالبان جنگجوو کے لاشیں برآمد ہونے کا بھی سلسلہ جاری ہے۔

سابق افغان نیشنل آرمی کی داعش میں شمولیت

امریکی اخبار وال اسٹريٹ جرنل نے ایک رپورٹ میں ميں دعویٰ کيا ہے کہ افغانستان سے امريکا کے جانے کے بعد سابق افغان فوجی اورجاسوس بے يارومددگار ہونے کے باعث اب داعش ميں بھرتی ہورہے ہيں۔

رپورٹ کے مطابق افغان انٹیلی جنس سروس کے کچھ سابق ارکان اور ایلیٹ فورس اہلکار جنہیں امریکا نے تربیت دی تھی اب داعش میں شامل ہوگئے ہیں۔ دہشت گرد گروہ میں شامل ہونے والے منحرف سابق فوجیوں کی تعداد نسبتاً کم ہے لیکن اس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ داعش میں نئے بھرتی ہونے والے آئی ایس آئی ایس کو انٹیلی جنس معلومات جمع کرنے اور جنگی تکنیکوں میں اہم مہارت رکھتے ہیں۔ یہ سابق فوجی طالبان کی بالادستی کا مقابلہ کرنے کے لیے شدت پسند گروپ کی صلاحیت کو بڑھا سکتے ہیں۔

افغانستان کی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ رحمت اللہ نبیل نے کہا کہ کچھ علاقوں میں داعش افغان سیکیورٹی اور دفاعی فورسز کے سابق ارکان کے لیے بہت پرکشش تنظیم بن گئی ہے۔ خاص طورپر ایسے فوجی جو ملک نہیں چھوڑ سکے وہ داعش کی صفوں میں شامل ہوگئے ہیں۔

داعش خراسان کب بنی؟

افغانستان اور پاکستان میں داعش خراسان خاصے عرصے سے سرگرم عمل ہے اور پچھلے کچھ برسوں میں اس نے دونوں ممالک میں شدید ہلاکت خیز حملے کیے ہیں۔ ان کی کارروائیوں کے دوران مساجد، مزارات، عوامی مقامات اور اسپتالوں تک کو نہیں بخشا گیا۔

دہشت گرد تنظیم داعش خراسان کی داغ بیل سن 2014 میں کنڑ افغانستان میں اس وقت ڈالی گئی جب اس سے کچھ عرصہ قبل شام میں بنی مرکزی تنظیم کی جانب سے خلافت کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا۔ افغانستان، پاکستان، ایران اور وسط ایشیائی ممالک پر مبنی قدیم علاقے خراسان کی نسبت سے اس داعش کی اس شاخ کا نام دولت اسلامیہ خراسان رکھا گیا تھا۔

دہشت گردی اور شدت پسندی کے موضوع پر دسترس رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ داعش خراسان کی بنیاد رکھنے والوں میں اہم کردار ان پاکستانی طالبان کا تھا جو پاکستان آرمی سے جان بچا کر افغانستان  میں جا چھپے تھے۔

اس گروہ نے شروع میں تو خود کو سرحدی علاقوں تک محدود رکھا لیکن بعد میں وہ شمال مشرقی افغانستان میں بالخصوص کنڑ، ننگرہار اور نورستان کے صوبوں میں بھی اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ  کے مطابق داعش خراسان بنیادی اراکین 500 ہیں جبکہ اس کے لیے کام کرنے والے شدت پسند ہزاروں میں ہوسکتے ہیں۔

AFGHAN TALIBAN

ISIS in afghanistan

ISIS-K

Tabool ads will show in this div