سابق افغان آرمی چیف مہاجرکیمپ میں بے بسی کی تصویر بن گئے

امریکی ریاست ورجینیا کے ایک مہاجر کیمپ میں فٹ پاتھ پر بیٹھے سابق افغان آرمی چیف ہیبت اللہ علی زئی کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے جو سوچ بچار میں گم عام لوگوں کی طرح فٹ پاتھ پر بے بسی کی تصویر دکھائی دیے۔
تصویر پر افغان عوام کی جانب سے طرح طرح کے تبصرے کیے جارہے ہیں تاہم افغان سوشل میڈیا صارفین کی اکثریت اسے امریکا کی سنگدلی قرار دے رہی ہے اور سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ ایک سابق آرمی چیف کے ساتھ بھی عام لوگوں جیسا رویہ کیوں روا رکھا جارہا ہے۔
سابق افغان حکومت کے حامیوں نے تو سابق آرمی چیف کیمپ کے بجائے امریکا کے کسی پوش علاقے میں منتقل کیے جانے کی خواہش کا بھی اظہار کیا ہے۔
هیبتالله علیزی یک هفته قبل از فروپاشی، بهحیث رئیس ستاد ارتش گماشته شد. او گفت: " این جنگ را میبریم." او حالا در کمپ مهاجران افغان در ویرجینیا است. سرخورده از یک شکست تلخ. بسیاری از سربازان ارتش افعانستان به وطن و سرزمین شان تعهد داشتند، اما همه قربانی خیانت رهبری مملکت شدند. pic.twitter.com/B1BsVRPNfS
— Mukhtar wafayee مختار وفایی (@Mukhtarwafayee) October 23, 2021
خیال رہے کہ ہیبت اللہ علی زئی کو سقوط کابل سے چند دن قبل ترقی ملی تھی اور اس سے قبل وہ افغان اسپیشل فورسز کمانڈو یونٹ کے سربراہ تھے۔
سابق افغان صدر اشرف غنی نے 11 اگست کو ولی احمد زئی کو آرمی چیف کے عہدے سے ہٹانے کے بعد ان کی جگہ ہیبت اللہ کو نیا سپہ سالار مقرر کیا تھا۔
واضح رہے کہ ہیبت اللہ علی زئی سے قبل سابق افغان آرمی چیف ولی محمد احمد زئی کی ملک سے فرار کی غرض سے کابل ائیرپورٹ پر لائن میں کھڑے ہونے کی تصویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔

طالبان کے مقابلے میں افغان فوج کی پسپائی کی وجوہات
سقوط کابل کے فوراً بعد 20 اگست کو ترک نشریاتی ادارے کو انٹرویو کےدوران ایک اور سابق افغان آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ شیر محمد کریمی کا کہنا تھا کہ کرپشن اور سیاسی مداخلت نے افغان فوج کو برباد کیا۔
شیر محمد کریمی نے انکشاف کیا کہ مسئلہ یہ نہیں کہ فوج لڑنا نہیں چاہتی تھی بلکہ انہیں لڑنے کا حکم ہی نہیں دیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغان سیاست دان تمام عسکری معاملات میں ملوث ہیں جبکہ فوج میں تقرریاں بھی سیاست دانوں کی مرضی سے ہوتی تھیں۔
افغانستان میں تین لاکھ سرکاری فوج کی پسپاہی کے بعد ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ تعداد صرف کاغذوں تک محدود تھی اور حقیقت میں افغان سپاہیوں کی تعداد اس سے کہیں کم تھی جبکہ طالبان کے حملے کے وقت نہ تو ان کو تنخواہ دی جا رہی تھی اور نہ ہی مناسب خوراک فراہم کی جا رہی تھی۔
برطانوی اخبار گارڈین میں 30 اگست کو امریکا میں انسداد بدعنوانی کے ایک حکومتی منصوبے میں شامل تحقیق کار زیک کوپلن کا مضمون شائع کیا گیا جس میں کہا گیا کہ افغانستان میں اکثریت گھوسٹ یا فرضی فوجیوں کی تھی جن کی تنخواہیں جنگجو کمانڈروں، افغان سیاسی اشرفیہ اور امریکی دفاعی ٹھیکیداروں کی جیبوں میں جا رہی تھیں۔
زیک کوپلن کا کہنا تھا کہ افغانستان کی سرکاری فوج زیادہ تر ایک سیراب کی ماند تھا جو قابض امریکی فوج کے سائے میں نظر آرہا تھا اور اس میں کوئی حیران کن بات نہیں تھی کہ افغان اس کے لیے کھڑے ہونے اور اپنی جانیں دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔